حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو خاصی برتری حاصل ہے کہ اس ماہ کی دسویں تاریخ جسے ”عاشورہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، دنیا کی تاریخ میں اتنی عظمت و برکت والا دن ہے کہ جس میں پروردگار کی قدرتوں اور نعمتوں کی بڑی بڑی نشانیاں ظاہر ہوئیں جو تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
قرآن عظیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”خدا (کے انعام) کے دنوں کو یاد کرو۔“ دوسری جگہ فرمایا ”انہیں اللہ کے دن یاد دلا دو۔“ یعنی وہ دن جن میں بڑی بڑی نعمتیں اللہ تعالیٰ کے طرف سے مختلف قوموں کو عطا ہوتی رہیں۔مثلاً حکومت و اقتدار اور دشمنوں سے خلاصی، آفتوں سے نجات یا جو بڑی بڑی مصیبتیں مختلف قوموں کو قدرت کی طرف سے پیش آتی رہیں مثلاً وباو قحط ان کی محکومی و غلامی یا تباہی و بربادی۔
غرض یہ کہ ایام اللہ کے تحت ہر قسم کے اہم تاریخی واقعات آجاتے ہیں۔یوں تو ہر دن ،ہر رات اور ہر زمانہ کا ہر لمحہ خداوند قدوس کی تخلیق سے ہے اور کچھ نہ کچھ خصوصیت رکھتا ہے۔مگر بعض ایام ایسے ہیں جو اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے دوسرے ایام پر فوقیت رکھتے ہیں ،بلکہ انہیں ایام میں ماہ رمضان کو جو دوسرے مہینوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے ،وہ کسی اہل اسلام سے مخفی نہیں۔یونہی بعض دوسرے ایام بھی اضافی حیثیتوں سے بڑی عظمت و شرف کے حامل ہیں۔
یوم عاشورہ یعنی دسویں محرم الحرام کا دن بھی انہیں مخصوص ایام میں سے ہے جن کی فضیلت کا ذکر کتب احادیث اور کتب تواریخ میں ملتا ہے۔اسلام میں چار مہینے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں۔ (1)ذوالقعدہ۔(2)ذوالحجہ۔(3)محرم الحرام۔(4)رجب المرجب۔عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان میں جنگ و جدال وغیرہ کو حرام تصور کرتے تھے اور ان مہینوں کی بے حد تعظیم و تکریم بجالاتے تھے۔
مگر مذہب اسلام میں ان مہینوں کی حرمت وعظمت اور زیادہ کی گئی۔ان حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو خاصی برتری حاصل ہے کہ اس ماہ کی دسویں تاریخ جسے ”عاشورہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،دنیا کی تاریخ میں اتنی عظمت و برکت والا دن ہے کہ جس میں پروردگار کی قدرتوں اور نعمتوں کی بڑی بڑی نشانیاں ظاہر ہوئیں جو تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
چنانچہ اسی دن ۔٭ حضرت آدم و حواہ علیہما الصلوٰة والسلام پیدا ہوئے اور اسی دن ان کی توبہ کو شرف قبولیت حاصل ہوا۔
٭ حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے۔
٭ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح میں سلامتی کے ساتھ جودی پہاڑی پر لگی۔
٭ حضرت ابراہیم علیہ السلام مرتبہ خلعت سے سرفراز کئے گئے۔
٭ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ و سلامت باہر آئے۔عرش و کرسی ، لوح و قلم، آسمان و زمین، چاند و سورج، ستارے اور جنت بنائے گئے۔٭ حضرت ایوب علیہ السلام تکلیف سے صحت یاب ہوئے۔
٭ حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام کے اپنے لاڈلے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
٭ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن و انس وغیرہ پر حکومت عطا ہوئی۔
٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے ظالم و سفاک اور خدائی کے دعویدار شخص سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر سمیت دریا میں غرق کیا گیا۔
٭ آسمان سے زمین پر پہلی بار بارش ہوئی۔
٭ ہمارے آقا و مولیٰ تاجدار مدینہ ،راحت قلب و سینہ حضور ﷺ کا عقد ام المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔
٭ اسی دن قیامت آئے گی۔
یوم عاشورہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اسی دن حضرت امام عالی مقام ،شہزادہ گلگوں قبا، راکب دوش مصطفےٰ ﷺ ،حضرت فاطمة الزہرہ کی آنکھوں کے تارے،تاجدارِولایت شیر خدا حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے بیٹا ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے 20ہزار عراقی سورماؤں اور انعام و اکرام کے لالچی مسلح فوجیوں کے مقابلے میں اپنے بھانجھے، بھتیجے اور بیٹے کو اعلائے کلمة اللہ کے لئے میدان کرب و بلا میں قربان کر دیا اور بذات خود حضرت شیر خدا کے نور عین ،لخت جگر فاطمہ، جنتی نوجوانوں کے سردار حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ بھی محرم الحرام کی اسی دس تاریخ 16ھ ،بمطابق 10اکتوبر ،بروز جمعة المبارک،56سال ،5 ماہ اور 5دن کی عمر شریف میں اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف سفر فرمایا۔
ثابت ہوا کہ محرم کی دسویں تاریخ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت و فضیلت والی ہے۔اسی لئے رب تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے محبوب نواسے کی شہادت کے لئے اسی یوم عاشورہ کو منتخب فرمایا۔