سنہ 1947ء میں برصغیر ہندسے برطانوی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک ہندوستان تقسیم ہوکر یہاں کے لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا، ہندوستان میں بسنے والی مختلف اقوام نے اپنی اپنی سطح پر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔
کسی نے ملک سے غریبی کم کرنے کی جانب توجہ دی تو کسی نے ملک کی اقتصادی صورت حال بہتر بنانے کی جانب اپنا رُخ کیا۔ کسی نے غریبی کم کرنے کے لیے اپنی پیش رفت دکھائی تو کسی نے صحت و صفائی پر زور دیا تو کسی نے تعلیم کی جانب سے لوگوں کا ذہن مبذول کرانے کی کوشش کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے۔اور سنہ 1947ءمیں ملک جہاں تھا،آج ہر اعتبار سے ملک کہیں زیاہ ترقی کر چکا ہے۔
اس ملک میں تعمیری کردار ادا کرنے میں جہاں ہندو قوم آگے آئی تو وہیں سکھ اور جین اور مسلمان اور عیسائیوں نے بھی اپنی اپنی ذمہ داری پوری زندہ دلی کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دی اور آج بھی دے رہے ہیں۔
ہندوستان نہ صرف مختلف رنگ ونسل اور تہذیب و ثقافت کا ملک ہے بلکہ یہ ایک وسیع و عریض ملک ہے، جہاں بیک وقت پورے ملک میں ایک جیسی اور ایک ساتھ تمام طرح کی ترقیاتی سرگرمیاں جاری نہیں کی جاسکتی ہیں۔یہاں جب بھی ترقیاتی کام ہوں گے اس کی رفتار دھیمی ہی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جب آزاد ہوا تو اس وقت یہاں کی تعلیمی شرح صرف 12فیصد تھی، اور اب جب کہ ملک کو آزاد ہوئے 74 برس بیت گئے تو ملک تعلیمی اعتبار سے کافی آگے پہنچ چکا ہے۔ اب یہاں تعلیمی شرح 74فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد میں اپنے اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا کہ ہندوستان میں اپنی پسند سے بسنے والے مسلمانوں نے تعلیمی اعتبار سے کیا روش اختیار کی۔
دینی مدارس
ہندوستان میں دینی مدارس کا قیام اگرچہ آزادی سے تقریباًنصف صدی قبل ہی ہو چکا تھا، تاہم آزادی ہند کے بعد بھی مسلسل نئے مدرسوں کا قیام عمل میں آتا رہا۔ جس نے ملک کو بے شمار اچھے او تعلیم یافتہ شہری فراہم کئے۔ اس وقت ہندوستان میں پانچ لاکھ مسجدیں،اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مدرسے ہیں، جہاں مسلسل امام اور مدرس کی ضرورت ہوتی رہتی ہے، اور ا س کی فراہمی بھی مسلسل دینی مدارس کی جانب سے کی جاتی ہے۔
دینی مدارس کے فارغین نہ صرف اچھے شہری کے روپ میں ابھرے بلکہ انھوں نے مختلف ہائے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جب کمپیوٹر عام ہوا تو اس کے لیے اردو اور عربی آپریٹر کی ضرورت کی پیش آئی، جس کو چلانے کے لیے دینی مدارس کے فارغین ہی سامنے آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے یہاں کی تعلیمی شرح میں دینی مدارس کے تعاون سے اضافہ کرنا شروع کیا۔
جس طرح ملک کو بیک وقت انجینئر اور ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ملک کے لیے اچھے شہری کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے، اس کمی کو ملک میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے مشہور رہنما اور مصلح قوم پدم ویبھوشن انعام یافتہ مولانا وحیدالدین خاں نے اس موضوع پر اپنے ماہنامہ الرسالہ ستمبر 2000ء میں ایک خصوصی شمارہ شائع کیا ہے۔
انھوں نے اس میں لکھا ہے کہ مدارس کا پورا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں آدمی کو صبح و شام اخلاق و انسانیت کی تربیت دی جاتی ہے۔وہاں رسول اور اصحاب رسول کو زندگی کے لیے رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ مدارس عملاً ملک کے لیے اچھے شہری اور بہترانسان فراہم کرنے کے ادارے بن گئے۔(ماہنامہ الرسالہ، ستمبر2000، صفحہ:74)
سچر کمیٹی کی رپورٹ
مسلمانوں کی معاشی، اقتصادی اور تعلیمی و ثقافتی صورت پر سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک رپورٹ تیار ہوئی، جسے لوک سبھا میں 30نومبر2006ء کو پیش کیا گیا۔
اس کے مطابق محض چار فیصد مسلم بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، جب کہ تقریبا14 فیصد مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں، جہاں مسلمانوں کی تعلیمی شرح 59 فیصد ہے، جو کہ یہاں کی عام تعلیمی شرح سے کافی کم ہے۔
سچرکمیٹی کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تعلیم سے سب سے پیچھے اگر کوئی قوم ہے تو وہ مسلمان ہے۔ اس لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب مسلم قوم تعلیم میں پیچھے ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے اس کمیونٹی سے وابستہ افراد نے کیا کیا خدمات انجام دیے ہیں۔
الامین ایجوکیشنل سوسائٹی
ریاست کرناٹک کے ضلع بنگلور کے ماہر تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے سنہ 1966ء میں الامین ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کیا۔اس کے تحت مختلف قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔
اس کے ذیلی ادارے میں سے ایک الامین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن سائنسز (اے آئی آئی ایس) ہے۔ یہاں کالج انفارمیشن سائنس کے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ کورسز پیش کررہا ہے۔ ماسٹر آف کمپیوٹر ایپلی کیشن (ایم سی اے) اور بیچلر آف کمپیوٹر ایپلی کیشن (بی سی اے) کالج کے ذریعہ پیش کردہ کورسیز ہیں۔ کورسز کو آل انڈیا کونسل برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) اور کرناٹک کی حکومت نے منظور کیا ہے۔ یہ ادارہ بنگلور یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہے،کالج کو قومی تشخیص اور ایکریڈیشن کونسل (این اے اے سی) کی سند حاصل ہے۔ کالج میں سیسکو تعلیمی پروگرام منعقد کررہا ہے جو طلبہ کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
برکت اللہ یونیورسٹی
آزادی کے بعد ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں برکت اللہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ 1970ء میں قائم ہوئی۔
کریم سِٹی کالج
ریاست جھارکھنڈ کے ضلع جمشید پورمیں کریم سِٹی کالج کا قیام1961ء میں عمل میں آیا۔ ریاست کی مشہورو معروف علمی شخصیت سید تفضل کریم نے اسے قائم کیا تھا۔ اس میں پروفیشنل کورس کرائے جاتے ہیں، جہاں کے فارغین غیر ممالک میں جا کر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ریاست جھارکھنڈ کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے، جہاں اقلیتی طبقے خصوصاً مسلمانوں کے لیے ہے۔
رحمانی تھرٹی
رحمانی تھرٹی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا ایک معروف تعلیمی ادارہ ہے، جسے ہندوستان کے ممتاز مسلم عالم دین و سابق ایم ایل سی بہار قانون ساز کونسل کے مولانامحمد ولی رحمانی نے قائم کیا تھا۔ رحمانی تھرٹی کے قیام کا سب سے بڑا مقصد اقلیتی طبقے طلبا کا مستقبل سنوارنا ہے۔
اس سلسلے میں اقلیتی طبقے سے رکھنے والے 30 ہونہار اور باصلاحیت طلبا کا انتخاب کیا جاتا ہےاور انھیں جے ای ای، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، میڈیکل، سی اے، سی ایس اور قانون کے داخلے کے لیے داخلہ امتحان کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔
ہمالین ایجوکیشن مشن سوسائٹی
ہمالین ایجوکیشن مشن سوسائٹی کا قیام سنہ 2003ء میں جموں و کشمیر کے ضلع راجوری میں عمل میں آیا۔ اس تعلیمی ادارے میں درجہ نرسری سے ڈگری لیول تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔اس کو محمد فاروق مضطر نے قائم کیا۔ یہ ادارہ جموں یونیورسٹی سے الحاق ہے۔
فی الوقت اس دورافتادہ شہر کے تعلیم کی ایک بہت بڑی ضرورت اس ادارے کے تحت انجام دی جا رہی ہے۔ اس میں بلا تفریک ہرمذہب و مسلک کے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہندو بچوں پانچویں درجہ تک اردو اور مسلم بچوں ہندی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اوپر کی سطروں میں، میں نے انتہائی مختصر طور پر ہندوستان میں آزادی ہند کی بعد مسلم سماج کے ذریعہ کی گئی تعلیمی جدوجہد وسرگرمیوں کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے، حالاں کہ سچائی یہی ہے کہ یہ ایک وسیع موضوع ہے، جس پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
تاہم مذکورہ بالا سطروں سے اس نتیجہ پر یقینی طور پر پہنچا جاسکتا ہے کہ مسلم طبقے کی جانب سے ملک میں تعلیمی شرح میں اضافے کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، ضرورت اس بات کی ہے، مسلم سماج تعلیم کے میدان میں مزید زیادہ سے زیادہ کام کرے تاکہ یہاں بسنے والے ہرشہری کے پاس علم کی شمع پہنچ جائے۔