✍ شیخ محمد علقمہ مالیگاؤں
مدرسہ کیا ہے یہ مدرسہ کی در و دیوار سے پوچھو مدرسہ کیا ہے یہ لہلہاتی کلیوں اور پھولوں سے پوچھو مدرسہ کیا ہے یہ کتاب و قلم سے پوچھو۔
مدرسہ یہ ایک چشمہ صافی ہے جو نبوت کے چشمہ حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے کشت زاروں کو سیراب کرتا ہے۔
مدرسہ یہ چراغ نبوت ہے جس سے پوری دنیا سیراب ہوکر تہذیب و ثقافت اور علم و آگہی سے منور ہے۔
مدرسہ یہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ کی عملی تفسیر ہے
مدرسہ یہ وہ کارخانہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے،
مدرسہ یہ وہ چھاؤنی ہے جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ وہ پاور ہاؤس ہے جہاں سے پورے عالم میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، اور پوری انسانیت اسکی نگرانی میں ہوتی ہے۔
اس کا تعلق براہ راست نبوت محمدی سے ہے جو عالمگیر ہونے کے ساتھ زندہ جاوید بھی ہے۔ مدرسہ نے جب سے زندگی کی رہنمائی وپاسبانی کی ذمہ داری لی ہے ہمہ وقت مصروف ہے۔ تغیر پذیر معاشرہ پر نظر رکھنے کے ساتھ وقت کے تقاضوں کے مطابق شرعی اصولوں کے پیش نظر احکامات جاری کرنا اور سر ابھارتے فتنوں کی بیخ کنی ہے تو بہکتے وڈگمگاتے قدموں کو جمانا بھی۔ اگر ان ساری ذمہ داریوں کو قبول کرنے والا ادارہ سہولت اور چین کی سانس لینے لگے تو پھر معاشرہ کی قیادت کون کریگا اور پیغام محمدی کون سنائے گا۔
دوستو یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے قابل فخر ماضی پیش کئے جس کی ابتداء مدرسہ صفہ کے چھوٹے سے چبوترے سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم آب و گل میں اس کی شاخیں پھیلتی چلی گئی۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے فن حرب میں ایوبی و غزنوی جیسے سپہ سالار پیدا کئے۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے ائمہ اربعہ کی شکل میں فقاہت کے امام پیدا کئے۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے بخاری و مسلم کی شکل میں علم حدیث کو بام عروج پر پہونچایا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنکی بدولت فلسفہ نے امام غزالی ابن سینا اور ابن رشد کی شکل میں فخر کرنا سیکھا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جن میں جابر بن حیان اور ابن باجہ کی شکل میں علم کیمیاء پروان چڑھا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جن میں سائنس نے الفارابی و البیرونی کی شکل میں مسکرانا سیکھا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جن میں طب نے ابوبکر رازی ابو القاسم زہراوی ابن طفیل ابن الہیثم اور ابن زہر کی شکل میں چلنا سیکھا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے امام واقدی اور ابن خلدون کی شکل میں دنیا کو فن تاریخ کا پتہ دیا۔
یہی وہ مدرسے ہیں جنہوں نے اسمائے رجال جیسا بے مثال فن ایجاد کرکے دنیا کو محیر العقول کردیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ علم و ادب معرفت و للہیت حکمت و دانائی اور تہذیب و ثقافت سے دنیا کو انہی مدارس نے روشناس کرایا۔
مگر افسوس۔۔۔ افسوس در افسوس
مختصر یہ کہ جس قوم کو دنیا کی راہنمائی کرنی تھی وہ آج تقلید مغرب کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہمارے طلبہ غیر شعور اور غیر ذمہ دار ہوچکے ہیں انکے دل و دماغ فکر و درد سے خالی ہے وہ کوتاہ اور لاپرواہ ہوچکے ہیں۔
آج دنیا جہالت کے دور کی طرف لوٹتی چلی جارہی ہے میدان کے میدان خالی نظر آرہے ہیں ایسے میں آپ کے لئے اپنی بے لوث خدمت کے ذریعہ بے مثال نقوش ثبت کرنے کے بہترین مواقع ہیں، دنیا سے ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے قدم بڑھاتے ہوئے اور اصلاح دنیا کی خدمت انجام دیتے ہوئے آپ بھی تاریخ کے ستون بن سکتے ہیں۔
اسلام کی ترجمانی اور دعوت حق کے جذبہ سے سرشار ہوکر دنیا کو نور نبوت سے منور کرتے ہوئے آپ یکتائے روزگار سلف کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں
اور آپ دنیا میں اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بن کر رضائے الٰہی کا فرحت بخش پروانہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
آج مدارس و مساجد کی دیوار سے نکل کر دنیا کو یہ بتانا ہے کہ یہ قران مقدس فقط مسجد و مدرسہ کی کتاب نہیں ہے۔
یہ گھروں کی کتاب ہے یہ سماج کی کتاب ہے یہ سوسائٹی کی کتاب ہے یہ بازاروں اور مالوں کی کتاب ہے یہ فیکٹریوں اور کمپنیوں کی کتاب ہے یہ اسکول و کالج کی کتاب ہے یہ سیاسی ایوانوں کی کتاب ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر شعبہ کے لیے مکمل دستور حیات ہے آپ کے ہر مسائل کا حل آپ کو یہ کتاب مقدس پیش کریگی۔
عزیزو فقط آپ کے عزم و حوصلہ کی دنیا منتظر بیٹھی ہے دنیا آپ کے قدموں کی آہٹ سننے کو بے تاب ہے اور انقلاب آپ کی راہیں تک رہا ہے۔
عزم و حوصلہ کے ساتھ جوش و ولولہ کے ساتھ اسلامی اسپرٹ کے ساتھ اٹھو اور کہہ دو
یہ مہر تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں