اسلام کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، ماہ ذی الحجہ کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد لازمی طور پر آتی ہے، مناسک حج ہوں یا قربانی کا موقع ، مکہ مکرمہ کی وادی ہو یا منیٰ وعرفات کی گھاٹیاں، صفا ومروہ کی چٹانیں ہوں یا چاہ زمزم کا آب شیریں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد اہل اسلام کو ایک نئے جوش وخروش سے ہمکنار کرتی ہے، آپ کے تذکرہ سے پڑمردہ دلوں کو نئی زندگی ملتی ہے، مایوس دل کوحوصلہ ملتاہے، آپ کے واقعات سننے سنانے سے عقیدہ میں پختگی اور عمل میں چستی پیدا ہوجاتی ہے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
اللہ تعالی نے انبیاءکرام کو معجزے عطا فرمائے، کوئی نبی بغیر معجزہ کے تشریف نہیں لائے ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی اللہ تعالی نے عظیم معجزات عطا فرمائے اور آپ کی مبارک زندگی کو انسانیت کے لئے نمونہ عمل بنایا۔ آپ نے زندگی کے ہرمرحلہ میں دین اسلام کی حیات وبقا کے لئے اپنا ہرلمحہ ‘ہرسانس قربان کردیا؛ یہاں تک کہ اپنا مال‘ اپنی اولاد اور اپنی جان بھی حق تعالی کے لئے قربان کیا۔
اللہ تعالی جب کسی بندے کو اپنا محبوب بنانا چاہتا ہے تو اس کو کڑی آزمائش اور سخت امتحان کے مرحلہ سے گزارتا ہے، جب بندہ امتحان میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے، مگر انبیاءکرام علیھم الصلوٰة والسلام کو حق تعالی پہلے اپنا بناتا ہے ‘ پھر انہیں منزل امتحان سے گزارتا ہے، انبیاءکرام کی آزمائش صرف اس لئے ہوتی ہے کہ کائنات کو ان حضرات کا عزم واستقلال اور ثابت قدمی بتائی جائے، تاکہ امت، امتحان وآزمائش کے وقت ان کی ثابت قدمی کو پیش نظر رکھے اور اسے منزل فلاح سے ہمکنار ہونے میں آسانی ہو۔اور جب ابراہیم (علیہ السلام)کو ان کے رب نے چند باتوں سے آزمایا تو انہوں نے اسے پورا کیا۔ (سورة البقرة)
آیت کریمہ میں مذکور ”کلمات“سے کیا مراد ہے، اس کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں، چوتھی صدی ہجری کے محدث ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ نے ” کلمات “کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: وہ کلمات جن کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو آزمایا گیا اور انہوں نے اسے پورا کیا۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے قوم سے علٰیحدگی اختیار کرنے کاحکم فرمایاتوحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام اللہ کے لئے اپنی قوم سے علٰحدہ ہوگئے ،آپ نے اللہ تعالی کے بارے میں نمرود سے مناظرہ کیا یہاں تک کہ اسے ایسے معاملہ میں لاجواب کردیا جس میں ان لوگوں کو اختلاف تھا۔جب لوگوں نے آپ کو آگ میں جلانا چاہا تو آپ نے آگ میں ڈالے جانے پر صبر کیا۔
جب اللہ تعالی نے قوم کو خیرباد کہنے کا حکم فرمایا تو آپ نے اپنے وطن اور ملک سے اللہ کے لئے ہجرت فرمائی۔ آپ نے ضیافت ومہمانی کا معمول قائم رکھا اور صبر کیا ‘ جس کا اللہ نے آپ کو حکم فرمایاتھا۔ جب اللہ تعالی نے قربانی کا امر فرمایاتو آپ نے اپنے مال کو قربان کیا، اپنے فرزندِ دلبند کی قربانی کے ذریعہ آپ کا امتحان لیا گیا، پھر جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے امتحان وآزمائش کی ان تمام دشوارگذار گھاٹیوں کو عبور کرلیا اور آزمائش کی کسوٹی پر مکمل اترے تو اللہ تعالی نے آپ سے فرمایا: فرمانبرداری کیجئے!آپ نے عرض کیا : میں نے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی ‘ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، آپ کا یہ طریقہ کار، ایسے وقت رہا جبکہ لوگ آپ کی مخالفت کرتے تھے اور آپ لوگوں سے علٰحدگی اختیار کرچکے تھے۔
بندہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ رب کی معرفت حاصل کرے اور صبح وشام اس کی عبادت میں مصروف رہے، بندہ کو تین امور کی وجہ سے معرفت الہی میں درجہ کمال حاصل ہوتا ہے۔
(1) ذات کی معرفت،جو خودی کی قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔
(2) صفات کی معرفت، جو اولاد کی قربانی سے ملتی ہے۔
(3) افعال کی معرفت، جو مال کی قربانی سے نصیب ہوتی ہے۔
جب تک یہ تین قربانیاں نہ دی جائیں محبتِ خدا کما حقہ نہیں ملتی اور نہ ہی بندہ ان قربانیوں کے بغیر کمال پاسکتاہے۔ (روح البیان )
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰةوالسلام نے محبت خداوندی میں ان تینوں امور کوسرانجام دیا آپ نے جان کی قربانی کی ، مال بھی خرچ کیا اور اولاد کوبھی قربان کیا۔
راہِ خدا میں مال کی قربانی:۔
محبت کی علامت ونشانی یہ بتائی گئی کہ چاہنے والا جو عمل کرے اپنے محبوب کے لئے ہی کرے، سننا چاہے تو صرف محبوب کی بات سنے اور گفتگو کرے تو اسی کا ذکرکرے ، سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام محبت الہی میں اتنا سرشار رہے کہ بذاتِ خود ذکر خدا میں مستغرق رہتے ،کسی اورسے اللہ تعالی کا ذکر سنتے تو ذکرالہی سے لطف اندوز ہوتے ، ذکر کی حلاوت وشیرینی کے اثر سے اس قدر متاثر ہوتے کہ ذکر کرنے والے شخص سے بار بار ذکر کرنے کی خواہش فرماتے اور ذکر الہی کی نسبت سے کوئی قربانی دینے کی نوبت آجاتی تو گریز نہ کرتے۔
حق تعالی نے اپنے خلیل کو مال ودولت کی کثرت عطا فرمائی ، جیساکہ تفسیر روح البیان میں ہے: آپ کے پاس بکریوں کے پانچ ہزار ریوڑ اور پانچ ہزار غلام تھے ، بکریوں کی نگہداشت وحفاظت کے لئے جو کتّے تھے ان کے گلوں میں سونے کے پٹے رہتے تھے ، فرشتوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ آپ کے پاس کثرت سے مال موجود ہے،اس کے ساتھ ساتھ آپ اللہ کے خلیل ہیں ، مقام خلت پر فائز ہیں،مال ودولت کی یہ فراوانی اور مقامِ خلت کا ایک ذات میں جمع ہونے سے فرشتے متعجب ہوئے۔(روح البیان )
تسبیح سننے کے عوض تمام مال قربان کردیا: چنانچہ آپ کے مرتبہ کے اظہار کی خاطر اللہ تعالی نے آزمائش کے لئے ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں زمین پربھیجا، جس راہ سے حضرت خلیل علیہ الصلوٰة والسلام اپنی بکریاں لیکر جاتے تھے ، اسی راہ میں وہ فرشتہ انسان کی شکل میں اونچے ٹیلے پر بیٹھ گیا اور ذکر الہی میں مصروف ہوکر بآواز بلند کہنے لگا: میرا رب پاک اور عظمت والا ہے ، فرشتوں اور حضرت جبریل کا پروردگار ہے۔حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے جب اپنے محبوب کی تسبیح سنی تواس کی لقاءکا اشتیاق موجزن ہوا، آپ نے ان سے فرمایا: اے انسان!میرے رب کا ذکر دوبارہ سناو، میں تمہیں اپنا آدھا مال عطا کردوں گا، اس نے دوبارہ تسبیح وتقدیس کے گن گائے ، آپ نے فرمایا:میرے خالق کا ذکر دوبارہ کرو، میرا ہر قسم کا مال ومنال جو بکریاں ‘ غلام اورجوکچھ تم دیکھ رہے ہو وہ سارے کا سارا تمہارے لئے ہی ہے۔ (روح البیان )
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنا مال ذکر الہی کے لئے خرچ کرکے بتادیا کہ محبت الہی میں اس درجہ فناہوجاو کہ مال کی محبت تمہیں راہِ خدا میں خرچ کرنے سے نہ روکے، دنیا اور دنیا کی دولت رب نے عطا کی ہے تو اس دنیوی دولت کے عوض اللہ تعالی سے دولتِ عقبیٰ خریدنی چاہئے، اخرو ی درجات اور اعلی مراتب کا سوال کرنا چاہئے۔ اس کے برخلاف مال کی محبت میں منہمک ہوکر آخرت سے غفلت کرنا‘دولت عقبیٰ سے محروم ہوجانا اور راہ خدا میں خرچ نہ کرنا، بندگی کا تقاضا نہیں۔
قوم کے لئے دعوت حق:۔
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام اپنی قوم کو مسلسل حق کی دعوت دیتے رہے ، بت پرستی کے عواقب ونتائج بیان فرماتے رہے اور خدائے واحد کی عبادت سے دنیا وآخرت میں کیا فوائد ہیں ‘ یہ سمجھاتے رہے ، دعوت دین کے میدان میں آپ نے جہدِ مسلسل وسعی پیہم کی ‘ لیکن قوم نے کورِ باطن واندرونی خباثت کی وجہ سے دعوتِ حق کو قبول نہ کیا۔