آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یکساں سول کوڈ پر ایک اہم بیان جاری کیا ہے۔ بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اے آئی ایم پی ایل بی کے آفیشل پیج پر دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ اللہ نے ہمیں ایک ایسے ملک میں پیدا کیا ہے جو بہت ساری خوبیوں سے لبریز ہے۔ اس ملک میں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں سے وابستہ افراد بستے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب صدیوں سے محبت اور انسانیت کے ساتھ ایک دوسرے کی سکھ دکھ میں زندگی گزارتے آئے ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بی جے پی پر ماحول خراب کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جارہی ہے، جو بنیادی مسائل سے توجہ بھٹکانے والی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ غیر آئینی اور ناقابل قبول ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے بیان میں کہا کہ جو مسلم قرآن و حدیث میں بتایا گیا ہے مسلمان اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ قرآن شریف اور حدیث کے احکام کو بدل ڈالے۔ مولانا نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں سود کا لین دین ہرگز جائز نہیں ہے اور اس چیز سے مسلمان پرہیز کرتا ہے۔ انہوں نے جوئے اور شراب کی بھی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان نہ شراب کی خرید یا فروخت کرسکتا اور نہ ہی وہ جوئے میں کسی قسم کا لین دین کرسکتا ہے کیونکہ اس کو دین اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی چیزیں کامن سول کوڈ میں آئیں گی جو شریعت کے خلاف ہوں گی۔ شریعت مرد کو انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یکساں سول کوڈ میں اس کی ممانعت ہوگی۔ شریعت میں مردوں کو طلاق دینے کا حق دیا گیا ہے، جس میں اگر دونوں کی رضامندی ہوجائے تو رسوائی کے بغیر عورتوں کا بھی فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامن سول کوڈ میں مرد کے ہاتھ سے طلاق کا حق چھین لیا جائے گا اور یہ اختیار عدالت میں جائے گا، جس میں کافی وقت لگتا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسلمانوں کے ایسے ہی بہت سارے معاملات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کامن سول کوڈ مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے بالکل بھی درست نہیں ہوگا۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ملک میں سبھی کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا پورا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کامن سول کوڈ پر عمل درآمد ہوتا ہے تو لوگوں کے جو بنیادی حقوق ہیں وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔ اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ سبھی قوموں کے لوگ شامل ہیں۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ اگر ملک میں کامن سول کوڈ نافذ کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے اور ملک کے لیے دستوری نقطہ نظر غلط اور نا قابل قبول ہوگا۔
مولانا سیف اللہ رحمانی نے کامن سول کوڈ پر کہا کہ اس کے فوائد تو ناقابل فہم ہیں، لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے ملک کے اتحاد کو چوٹ پہنچے گی اور لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچے گی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں قانون کے مطابق ہمیں اپنے مذہب اور تہذیب پر عمل کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ اگر کامن سول کوڈ پر عمل درآمد ہوتا ہے تو پھر قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوگا اور ہمارے ملک کی دنیا بھر میں بدنامی ہوگی۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ کامن سول کوڈ کا فائدہ ایک پائی نہیں ہے، اس کے نقصانات بہت ہیں۔ اس سے لوگوں کے جذبات بھڑکیں گے۔ لوگوں یہ محسوس کریں گے کہ ان سے ان کی شناخت چھینی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامن سول کوڈ سے اندیشہ یہ ہے کہ کہیں لوگ پھر سے بگھراؤ کی طرف نہ چلے جائیں۔