انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘دہشتگردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سیاسی کھیل شروع ہوگیا ہے۔
2017 میں اسمبلی انتخابات سے قبل لکھنو کے ہردوئی روڈ پر حاجی کالونی میں سعید اللہ کا انکاونٹر کیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح 2022 اسمبلی انتخابات سے قبل شدت پسندی کے الزام میں لکھنؤ سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری انتخابات کی تیاری کا حصہ ہے۔’
انہوں نے کہا کہ’ ایف آئی آر میں منہاج احمد کی گرفتاری 2 بج کر 40 منٹ پر جبکہ مشیرالدین کی گرفتاری 4 بج کر 10 منٹ پر لکھا ہے، حالانکہ علاقائی و گھروالوں کے مطابق اے ٹی ایس کے اہلکار ان کے گھروں کے باہر صبح سے ہی گھوم رہے تھے اور دونوں کی گرفتاری تقریبا 9 بجے ہوچکی تھی۔ اس طرح سے ایسے کئی سوال کھڑے ہو رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ پورا معاملہ بے بنیاد و فرضی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ رہائی منچ گرفتار کیے گئے سبھی پانچوں افراد کے لیے قانونی چارہ جوئی فراہم کرے گی اور عدالت میں پولیس کی دلیل کو چیلنج کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم بے باک ہو کر ایسی گرفتاریوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور امید ہے کہ سبھی کو باعزت بری کرائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک رہائی منچ نے تقریباً 17 ایسے افراد کو با عزت بری کرایا ہے جن کو پولیس نے شدت پسندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ عدالتی کارروائی میں وقت درکار ہوتا ہے تاہم سچائی سامنے آتی ہے۔پریس کانفرنس کے دوران شدت پسندی کے الزام میں گرفتار کیے گئے سبھی 5 افراد کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔
واضح رہے کہ 11 جولائی کو اتر پردیش انسداد دہشت گردی دستہ نے 30 برس کے منہاج الدین لکھنؤ کے دوبگا علاقے سے اور
مشیر الدین کو محب اللہ پور سے گرفتار کیا ہے۔