بابری مسجد کی شہادت کے کفارہ کےطور پر تقریبا سو مساجد تعمیر کرانے والے متحرک و فعال داعئ اسلام ماسٹر محمد عامر ہمارے درمیان نہیں رہے
ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبول اسلام کے بعد محمد عامر بن گئے تھے اور اپنے اس فعل کے کفارہ کے طور پر انہوں نے 100مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا اور اب تک 96 مساجد تعمیرکراچکے تھے، وہ تاریخ، سیاسیات اور انگریزی میں ایم اے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہ اپنے ضمیرکے قیدی بن گئے اور دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ سے معافی مانگ لی تھی۔
ماسٹر محمد عامر کا تعلق ہریانہ کے پانی پت کے ایک گاؤں سے رہا ہے اور پھر ان کے خاندان نے ہجرت کرکے شہر کا رُخ کیا اور روہتک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ بچپن سے وہ آر ایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے تھے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔بال ٹھاکرے نے انہیں متعارف کرایا تھا۔بلبیر سنگھ کے والد دولت رام گاندھیائی نظریات کے حامل تھے اور تقسیم ملک کے دوران مسلمانوں کی ہر طرح سے مدد کی تھی اور ان کے والدین نے دونوں بھائیوں کو بھی بہتری کے کام کے لیے نصیحت کی تھی،
محمد عامر کا کہنا تھا کہ بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی ان کے اندر بے چینی بڑھ گئی تھی ،لیکن مسلمانوں کے بارے میں دل ودماغ میں بھری نفرت نے مسجد پر مزید وار کرنے پر اکسایا اور اس درمیان طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا جہاں وہ دو اینٹ بھی ساتھ لے گئے جوکہ ابھی شیوسینا کے مقامی دفترمیں رکھی ہیں۔
والد نے گھر کے دروازہ بند کردیا تھا کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا جبکہ شہر میں استقبال ہوا۔لیکن دل کو چین نہیں تھا ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا تو جانچ کے بعد ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ تم دو تین مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہو گے، جبکہ ان کا ساتھی یوگیندرپال جو شہادت میں شامل تھا پاگل ہوگیا تھا اور اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھ کر کپڑے پھاڑنے لگا تھا، دنیوی اور روحانی علاج سے کوئی فرق نہیں پڑا، کسی موقع پر سونی پت میں مولانا کلیم صدیقی صاحب سے رابطہ کیا اور انہوں نے مشورہ دیا کہ مسجد کو مسمار کرنے کے گناہ کے لیے اللہ سے معافی مانگ لی جائے تو یوگیندر پال نے اپنے والد کے ساتھ مقامی مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر توبہ کی جس کے بعد ان کی طبیعت سنبھل گئی، جس کے بعد 1993میں بلبیر سنگھ (محمد عامر) اور ان کے والد مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ بات عام ہونے کے بعد 27 کارسیکوں نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا۔
گزشتہ دو روز سے ان کے گھر کا دروازہ نہیں کھلا تھا جس کی وجہ سے پڑوسیوں کو تشویش ہوئی چھت کے اوپر سے جاکر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ محمد عامر صاحب کا انتقال ہو چکا تھا، تادم تحریر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس طرح دروازہ وغیرہ بند ہونے کی کیا وجہ رہی ہوگی۔
خدا خیر کرے کوئی معقول وجہ رہی ہو،حق تعالی اپنے گھر کو آباد کرنے والے اس مرد قلندر کی مغفرت فرمائے اور حدیث جو شخص کوئی مسجد بنائے خواہ وہ پرندے کے گھونسلے کے برابر ہو یا اس سے بھی چھوٹی ہو یعنی کتنی ہی سادہ اور چھوٹی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دے گا۔ (ابن ماجہ، ابن خزیمۃ) کے مطابق معاملہ فرمائے اور اپنی شایانِ شان اجر عطا فرما کر اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آپ تمام احباب سے دعاۓ مغفرت و ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔