کچھ مہینے، ایام اور بعض گھڑیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص فضیلت عطا فرمائی ہے، جیسے رمضان کا مہینہ ہے ،جس کے پالینے کی خواہش خود رسول اللہ ﷺسے ثابت ہے ،جمعہ کا دن ہے ،جسے’’سیّد الایام‘‘کہاگیا ہے، اور جمعہ ہی کے بارے میں ایک ایسی ساعت کی خبر دی گئی ہے کہ جس میں کی گئی دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔اسی طرح ذوالحجہ کا مہینہ بھی بڑااہم ہے،ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو’’ایام العشر‘‘کہا گیا ہے، یہ بھی بڑی فضیلت کے حامل ہیں اور اس ماہ میں کئی بڑی عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں، مسلمان ان عبادات کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بجالاتے ہیں، سبقت کی کوشش کرتے ہیں ، محنتیں اور مشقتیں اٹھاتے ہیں ، کوئی حج کی عبادت میں سرگرداں رہتا ہے، کوئی قربانی کی عبادت میں مصروف ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔
قرآن کریم کی سورۂ فجر کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسم کھائی ہے، جس چیز کی قسم خود اللہ رب العالمین اٹھائیں، یہ اس کی عظمت کی دلیل ہوا کرتی ہے ، ان چیزوں میں سے ایک یہ ہے:’’ولیال عشر‘‘اور قسم ہے دس راتوں کی ، دس راتوں کی قسم اٹھانے کا معنی یہ ہے کہ بڑی اہم راتیں ہیں ، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ان سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دن ہیں ،اور یہ سال کے سب سے زیادہ افضل دن ہیں ۔ (ابن کثیر)
ان ایام کی عبادات اور اعمال اللہ کو بڑے محبوب ہیں ، ویسے انسان کی ساری زندگی ہی نیک اعمال میں گزرنی چاہیے ، اور ہردن کے نیک اعمال اللہ کے ہاں ان کی قدر ہوتی ہے، اور جس عمل میں جتنا اخلاص ہو ،وہ اتنا ہی زیادہ ثواب رکھتاہے، اور یہی نیک اعمال انسانی زندگی پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں اور انسان کو مرنے کے بعد بھی یہی نیک اعمال کام آتے ہیں ،ان ایام میں بھی ہر ہردن کی اہمیت کو جان کر وقت کی قدر کرنی چاہیے اور خوب خوب عبادت کرنی چاہیے۔
ترمذی شریف میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ان دس دنوں (ذی الحجہ کے پہلے عشرہ) سے زیادہ محبوب ہو۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! کیا ( ان ایام کے علاوہ دوسرے دنوں میں) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی (ان دنوں کے نیک اعمال کے برابر) نہیں ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا :نہیں ، البتہ اس آدمی کا جہاد جو اپنی جان و مال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں لڑنے) نکلا اور پھر واپس نہ ہوا ( ان دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ افضل ہے)
اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر جہاد ایسا ہو جس میں مال و جان سب اللہ کی راہ میں قربان ہو جائے اور جہاد کرنے والا مرتبہ شہادت پا جائے تو وہ جہاد البتہ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ محبوب ہے کیونکہ ثواب نفس کشی و مشقت کے بقدر ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینے سے زیادہ نفس کشی اور مشقت کیا ہو سکتی ہے!بہرحال ! ذو الحجہ کے پہلے عشرے کے اعمال اس اعتبار سے سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ بہت زیادہ برگزید اور باعظمت و فضیلت دن یعنی ’’ عرفہ‘‘ ان ہی دنوں میں آتا ہے اور افعال حج بھی انہیں ایام میں ہوتے ہیں۔(مظاہرحق)
سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہؓ حدیث نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ان ایام میں ایک دن کا روزہ اللہ کے ہاں ثواب میں ایک سال کے روزوں کے برابر ہے، اور ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کی طرح اجر وثواب رکھتی ہے۔
اس روایت سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ان دنوں میںروزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور جس قدر ممکن ہو عبادات کریں،خصوصاًرات کے اوقات اور رات کا آخری حصہ اس میں جسے عبادت کی توفیق مل جائے ،وہ اگرچہ دو رکعت نفل ہی کیوں نہ ہوں، بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ خود رسول کریم ﷺکے بارے میں ازواج مطہراتؓ نقل فرماتی ہیں کہ آپ نو دنوں کے روزے رکھتے تھے،پھر ان دنوں میں 9تاریخ وہ یوم عرفہ کہلاتی ہے، اس دن کاروزہ بطور خاص بڑی فضیلت کا حامل ہے ۔رات کی عبادت لیلۃ القدر کے برابر یعنی نوافل تلاوت ذکرواذکار ہیں،انسان ان کااہتمام کرے، ورنہ کم ازکم فرائض اور سنتوں کا اہتمام اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس دن بڑے مقدس، محترم اور عظمت والے ہیں،ان دنوں میں اعمال بطورخاص اللہ کے ہاں بڑے پسند کیے جاتے ہیں ، لہٰذا ان ایام میں روزوں ، عبادات ، نوافل ، ذکر ،تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیےاور قر بانی کرنے والوں کو چاند دیکھنے سے قبل ہی بال ناخن درست کرواکر حدیث کے مطابق حجاج سے مشابہت کی بناء پر چاند کے بعد بال ناخن کٹوانے سے احتراز کرنا چاہیے، یہ مشابہت بھی ان شاء اللہ ہمارے لیے رحمت اور برکت کا سبب ہوگی۔