ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کو فسادات کے دوران یا یوں ہی مختلف الزامات میں گرفتار کیا جاتا اور پھر برسوں بعد انہیں عدالت کی جانب سے باعزت بری کردیا جاتا۔ جس سے نہ صرف ان کی بلکہ ان کے اہل خانہ کی زندگیاں بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں۔
گجرات کی سیشن عدالت نے ایک کشمیری شخص بشیر احمد عرف اعجاز بابا (43) کو غیر قانونی سرگرمیوں سے بچاؤ ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزامات سے باعزت بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ انہیں 2010 میں مسلمان نوجوانوں کو تربیت کے لئے پاکستان بھیجنے اور بھارت میں عسکری سرگرمیوں کو پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بابا فروری 2010 میں احمدآباد کے گجرات کلیفٹ اور کرینیو فیشل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تربیت کے لئے سری نگر سے گجرات آئے تھے۔ انہیں 13 مارچ کو آنند سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کسی جاننے والے سے ملنے گئے تھے۔ ان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور کالعدم حزب المجاہدین کے رکن کی حیثیت سے عسکریت پسندی پھیلانے کی مجرمانہ سازش کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج ایس اے ناکم نے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے اس مقدمے کو مسترد کردیا کہ بابا حزب اللہ کے عسکریت پسندوں سے وابستہ تھا۔ جج نے کہا کہ کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ وہ الیکٹرانک گیجٹ کے ذریعے عسکری عناصر سے رابطے میں تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ جذباتی دلیل پر انحصار کرتا ہے اور کسی شخص کو صرف انارکی کے خوف سے ہی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا