اترپردیش میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کبھی لو جہاد کے نام پر تشدد و گرفتاری تو کبھی تبدیلی مذہب قانون کی آڑ میں بے قصور لوگوں کی گرفتاری تو کبھی آبادی کے تناسب کے مسئلے کو اٹھایا جارہا ہے۔
ریاست اترپردیش کے دار الحکومت لکھنو میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے سکریٹری ایڈوکیٹ نجم الثاقب خان نے میڈیا کو جاری بیان میں محمد عمر گوتم اور مولانا جہانگیر عالم قاسمی افراد کی گرفتاری کو سراسر ناانصافی قرار دیا ہے اور اس کی شدید مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے گرفتاری کی گئی ہے اور ان دونوں پر شدید الزام لگائے جارہے ہیں اور میڈیا کا ایک حصہ اس کو جس طرح پھیلا رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے عوامی جذبات کو ابھارنے اور نفرت کا ماحول پیدا کرکے اس کے ذریعہ سیاسی فائدے اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں تقریبا آٹھ ماہ بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر عوام کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر جذباتی ماحول پیدا کرنے کی اس طرح کی کوششیں بہت افسوسناک ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں کوئی زبردستی کسی کا مذہب کیسے تبدیل کرا سکتا ہے؟ اسلام تو اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ ملک کے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا دستوری حق حاصل ہے۔ اس کا یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
ایڈوکیٹ نجم الثاقب خان نے کہا کہ بغیر کسی مضبوط بنیاد کے دہشت گردی جیسے سنگین الزام لگانا اور این ایس اے جیسے خطرناک قوانین استعمال کرنے اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے جیسی دھمکیاں دینا، جمہوریت اور بھارتی دستور کو چیلنج کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی ناانصافیوں کے خلاف انصاف پسند لوگوں، تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو بھی آواز اٹھانی چاہئے اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اقدام کرنے چاہیے