ملک بھر بالخصوص بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح پریشان کیا جاسکے۔ کبھی لوجہاد، تو کبھی گاؤ کشی قانون تو کبھی تبدیلی مذہب قانون۔
یوگی حکومت نے 24 نومبر 2020 کو ‘جبراً مذہب تبدیلی آرڈیننس’ کو منظوری دی تھی اور بجٹ سیشن میں اسمبلی سے منظور ہوکر یہ قانون بن گیا تھا۔ مختلف سماجی کارکنان اور تنظیموں کے ذمہ داران نے اس قانون کو آئین کے خلاف اور مسلمانوں کو پریشان کرنے والا قرار دیا ہے۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ‘بھارتی آئین نے ہر بالغ لڑکے و لڑکی کو اپنی پسند سے زندگی جینے کا حق دیا ہے۔ ملک کے آئین میں پہلے سے ہی قانون موجود ہے لہذا پھر سے قانون بنانے کا کیا مطلب ہے؟’
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘اترپردیش سرکار عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرانے میں ناکام ہے، اسی لیے وہ اس طرح کے قانون نافذ کر رہی تاکہ سماج الجھا رہے، آئین نے ہر بالغ لڑکے و لڑکی کو اپنی پسند سے زندگی جینے کا حق دیا ہے، لوگ کورٹ میں جاکر پسند کی شادی کر رہے ہیں لیکن حکومت اس قانون کے ذریعہ مسلم سماج کو پریشان کرنا چاہتی ہے، حکومت تبدیلی مذہب قانون کی آڑ لے کر سیاست کر رہی ہے، یہ قانون صرف ہندوؤں کا ووٹ حاصل کرنے کی ایک چال ہے۔ اس سے کچھ ہونے والا نہیں’۔
ٹی وی اداکارہ و کلاسیکی ڈانسر فرحانہ فاطمہ نے کہا کہ، ‘یہ جمہوریت و ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ بھارتی آئین نے ہر بالغ لڑکے و لڑکی کو اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔’انہوں نے کہا کہ، ‘اس قانون کے بعد سماج میں نفرت بڑھے گی جبکہ ہمارا مقصد پیار و محبت کا پیغام عام کرنا ہے۔’
فرحانہ فاطمہ نے بتایا کہ، ‘سماج کے کچھ لوگ اس کا غلط استعمال کر کے ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنا کر تشدد کر سکتے ہیں، لہذا ایسا قانون بنانے کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔’سماجی کارکن و الامام ویلفیئر ایسو سی ایشن کے قومی صدر عمران صدیقی نے کہا کہ، ‘اس طرح کے قانون نافذ کرنے کا مقصد مسلمانوں کو ڈرانا دھمکانا ہے، جس سے خوش ہو کر سماج کا بڑا طبقہ بھاجپا کو ووٹنگ کرے۔ سرکار عوام کے مسائل حل نہ کر کے سماج کو تقسیم کرنے والا قانون بنا رہی ہے۔’
اترپردیش بالخصوص بی جے پی حکمراں ریاستوں میں اس قانون کی آڑ میں اب تک کئی بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اتر پردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے مبینہ طور پر لالچ دے کر مذہب تبدیل کروانے کے الزام میں قومی دارالحکومت دہلی کے اوکھلا علاقے سے دو عالم دین کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کے مطابق گرفتار شدگان کی شناخت مفتی قاضی جہانگیر قاسمی اور محمد عمر گوتم کے نام سے ہوئی ہے۔ دونوں جنوبی دہلی میں واقع جامعہ نگر کے رہائشی ہیں۔
پولیس کا مبینہ طور پر کہنا ہے کہ یہ لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مسلمان بناتے تھے اور اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کا مذہب تبدیل کروا چکے ہیں۔اتر پردیش پولیس کا مبینہ طور پر کہنا ہے کہ یہ لوگ خاص طور پر بہروں، بچوں اور خواتین میں اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ پر اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد مذہب تبدیل کر چکے ہیں۔
’گرفتاریاں ایک بڑی سازش ہے‘
مسلم رہنما اور ڈاکٹر عمر گوتم کی سرگرمیوں کو قریب سے جاننے والے اس کارروائی کو مسلمانوں کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
سينٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ مطالعات اسلامی کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ”عمر گوتم ایک عرصے سے اسلامی دعوۃ سنٹر چلا رہے ہیں۔ حکومت نے آخر اس وقت ہی انہیں کیوں گرفتار کیا؟ اس سے قبل کیا ان کی سرگرمیاں حکومت کی نگاہ میں نہیں تھیں؟” عمر گوتم سے ایک عرصے سے واقف پروفیسر اخترالواسع کا کہنا تھا کہ ‘اتر پردیش میں الیکشن جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت کو عمر گوتم کی مبینہ سرگرمیوں کا پہلے سے علم تھا تو انہیں پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘
تبدیلی مذہب کوئی جرم نہیں:۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اس ضمن میں ایک ٹویٹ میں کہا، ”زبردستی تبدیلی مذہب کرانے اور آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق جیسے الزامات بے بنیاد اور گھٹیا ہیں اور یہ عدالت میں ٹک نہیں پائیں گے۔ ان (عمر گوتم) پر لوگوں کو اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تبدیلی مذہب کوئی جرم نہیں ہے۔ آئین میں اس کی اجازت ہے۔”
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا، ”آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اے ٹی ایس کا دعوی فرضی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں ایسے سینکڑوں افراد بری ہوئے ہیں جن پر اس طرح کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایجنسیاں اکثر بے گناہ لوگوں کو پھنساتی رہتی ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گرفتاریاں در اصل اتر پردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں ایک موضوع بنانے کے لیے کی گئی ہیں۔
عمر گوتم کون ہیں؟
ڈاکٹر محمد عمر گوتم کا اصلی نام شیام پرتاپ سنگھ گوتم ہے۔ ان کی پیدائش سن 1962میں اتر پردیش میں فتح پور ضلع کے ایک راجپوت خاندان میں ہوئی۔ بیس برس کی عمر میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام محمد عمر گوتم رکھا۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جامعہ نگر کے بٹلا ہاؤس محلے میں قیام پذیر ہیں۔
جی بی پنت ایگری کلچر اینڈ ٹيکنالوجی یونیورسٹی سے زرعی سائنس میں گریجویٹ عمر گوتم نے اسلام قبول کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصے کے لیے وہاں لکچرر بھی رہے۔ انہوں نے بعد میں اسلام کی تبليغ و اشاعت کو اپنا مقصد بنایا اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اپنے کام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انہوں نے اسلامک دعوۃ سینٹر کے نام سے ایک اور مرکز قائم کیا۔
انٹرنیٹ پر ایسی بہت سی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عمر گوتم نے اپنے قبول اسلام کے واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ ان کے رابطے میں آنے والے ہزاروں افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔
پولیس کے مطابق نوئیڈا میں گونگے اور بہروں کی اسکول کے ایک درجن سے زائد بچے بھی اس میں شامل ہیں۔ جبکہ اسکول انتظامیہ نے اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تردید کی ہے اور ان لوگوں کی شناخت سے بھی انکار کیا ہے۔