ثبوت نہ ملنے کے سبب 12 برس کے بعد بنگلور کی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو بری کردیا جبکہ جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بنگلور کی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ استغاثہ عدالت میں ملزم کے خلاف اس کے مبینہ اقبالیہ بیان کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔
دوسری طرف جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ جب ایسے بے قصور افراد کو پھنسانے والے پولیس اہلکار کو عدالت میں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس وقت ایسے تکلیف دہ واقعات ہوتے رہیں گے۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ کسی بھی شخص کو سرحد پار کرانا جرم نہیں ہے۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے ایک ملزم کو سال 2005 میں بنگلہ دیش بارڈر پار کرایا تھا یعنی کہ اس نے ملزم کو بھارت میں داخل ہونے اور بعد میں اسے بھارت سے بنگلہ دیش جانے میں مدد کی تھی۔
بنگلور سیشن عدالت کے جج ڈاکٹر کسانپا نائیک نے ملزم محمد حبیب عرف حبیب میاں ساکن اگرتلہ، تریپورہ کو ایڈوکیٹ محمد طاہر کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرضداشت پر سماعت کے بعد مقدمہ سے بری کردیا۔ ایڈوکیٹ محمد طاہر کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کے دفاع میں مقرر کیا تھا۔
دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے ملزم محمد حبیب کو دیگر ملزم صباح الدین کے مبینہ اقبالیہ بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جو اس نے لکھنؤ میں سال 2008 میں دیا تھا جس میں اس نے کہا کہ تھا کہ سال 2005 میں وہ تریپورہ گیا تھا جہاں اس کی ملزم محمد حبیب نے بارڈر کراسنگ میں مدد کی تھی جس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (بنگلور) میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں صباح الدین اور اس کے دیگر ساتھیوں کا نام آیا تھا۔
ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے ملزم محمد حبیب کو ایک طویل عرصہ کے بعد 22 /مارچ 2017کو اگرتلہ سے گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن استغاثہ عدالت میں یہ نہیں بتا سکا کہ ملزم کو اتنی تاخیر سے کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ ملزم کو مفرور بھی ڈکلئیر نہیں کیا گیا تھا۔
دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کی توجہ استغاثہ کی جانب سے جمع کئے گئے ثبوت وشواہد کی قانونی حیثیت کی جانب بھی مبذول کراتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے ملزم کو سنی سنائی باتوں یعنی کہ دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا ہے جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے بے قصور قرار دئے جانے اور مقدمہ سے ڈسچارج کئے جانے پر عدالت کے فیصلے کا َخیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جہاں پولیس اہلکار کسی بے قصور کو جیل میں ڈال دیتے ہیں اور پھر لمبی عدالتی کارروائی کے بعد وہ شخص عدالت سے باعزت بری ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے اور اس طرح ایک سازش کے تحت کسی بھی شخص کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ایسے خاطی پولیس والے کو جو سازش کے تحت کے کسی کو گرفتار کرکے اس کی زندگی برباد کرتے ہیں، اس کے خلاف سخت سزا کا التزام ہونا چاہئے اور جب تک عدالت ایسے پولیس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کی اجازت نہیں دیتی اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔