افغانستان میں بعض افراد اب بھی وائرس کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہیں یا ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ایمان ان کی حفاظت کرے گا اور ماسک اور معاشرتی فاصلے کے اصول پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں اور جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
افغانستان کووڈ 19 کے انفیکشن میں اضافے کا مقابلہ کر رہا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ملک کو اپریل تک دی جانے والی 3 ملین کووڈ ویکسین کی خوراک اب اگست تک نہیں دی جا سکے گی، حالانکہ افغانستان میں صحت افسران مسلسل ٹیکے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نظری نے رواں ہفتے کہا کہ "ہم ایک بحران کے عالم میں ہیں” عالمی سطح پر ویکسین کی تقسیم پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غریب ممالک اپنے لوگوں کے لئے پریشان ہیں۔پچھلے ایک مہینے کے دوران کورونا کے نئے کیسز نے افغانستان کے صحت کے نظام کو انتباہ دے دیا ہے، جو پہلے ہی مسلسل جنگ کے باعث کمزور ہو چکا ہے۔
اس دوران بیشتر افراد اب بھی وائرس کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہیں یا ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ایمان ان کی حفاظت کرے گا اور ماسک اور معاشرتی فاصلے کے اصول پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں اور جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
صرف ایک ہفتہ قبل تک حکومت نے بڑے پیمانے پر اجتماعات پر بھی پابندی عائد نہیں کی تھی۔ وائرس کے نئے اسٹرین ڈیلٹا نے افغانستان میں انفیکشن کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس دوران افغانستان کے دارالحکومت سمیت ملک کے 16 صوبے وائرس سے متاثر ہیں۔
اس ہفتے رجسٹرڈ نئے کیسز کی شرح یکم مئی کے 178 کے مقابلے میں ایک دن میں 1،500 تک ہو گئی ہے۔اسپتال میں بستر خالی نہیں اور خدشہ ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے باعث اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہوجائے گی۔
وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نظری کا کہنا ہے کہ "ہم ایک بحران کے شکار ہیں۔ صحت خدمات کی فراہمی میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ بدقسمتی سے آکسیجن کی قلت کا خطرہ ہے، اگرچہ پوری حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی مریض کی آکسیجن کی کمی کو وجہ سے موت نہ ہو”
وزیر خارجہ حنیف اتمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ افغان سفیروں کو قریبی ممالک میں ہنگامی طور پر آکسیجن حاصل کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وبائی مرض سے افغانستان میں مجموعی طور پر 78،000 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ انفیکشن سے تین ہزار سات سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
لیکن اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے کیونکہ بہت سارے معاملوں میں مریض اسپتال تک نہیں پہچ پاتے ہیں اور گھر پر ہی دم توڑ دیتے ہیں اور حکومت ان کی موت کا اندراج اس میں نہیں کرتی ہے۔صرف پچھلے مہینے میں مثبت کووڈ جانچ کی شرح ملک کے کچھ حصوں میں تقریباً 8 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہوگئی ہے۔
ملک میں دو ہفتوں کے لئے اسکول، یونیورسٹیاں اور کالج بند کردیے گئے ہیں۔ اور شادی خانوں کو بھی بند کردیا گیا ہے، جو وبائی امراض میں بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہے تھے۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے جب کسی نے گلیوں میں ماسک پہنا ہو، یہاں تک کہ سرکاری دفتروں میں ماسک لازمی ہونے کے باوجود لوگ اسے استعمال نہیں کرتے ہیں۔