گذشتہ سال کورونا وائرس کے بحران کےدوران گودی میڈیا نے مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت کے خلاف خوب پروپیگنڈہ چلایا تھا جس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمان تاجروں اور مسلم سبزی فروشوں کا بائیکاٹ کیا گیا بعض مقامات پر ان پر تشدد بھی کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرتے ہوئے التجا کی گئی ہے کہ سی بی آئی یا این آئی اے کے ذریعہ ٹویٹر اور ان صارفین کے خلاف جنہوں نے گذشتہ سال تبلیغی جماعت معاملہ کے بعد مسلمانوں کو بدنام کرنے کےلیے اشتعال انگیز پوسٹ کئے تھے تحقیقات کرائی جائے۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے خواجہ اعزاز الدین نے قبل ازیں تلنگانہ ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر سوشل میڈیا نیٹ ورکس سے مخالف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے پوسٹوں کو ہٹانے کی ہدایت دینے کی گذارش کی تھی، جس پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے ٹویٹر کے خلاف مرکزی حکومت کو ہدایت دینے سے انکار کرتے ہوئے عرضی کو خارج کردیا جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی اس معاملہ میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
تلنگانہ ہائی کورٹ میں عرضی خارج ہونے کے بعد اعزاز الدین نے دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ درخواست گذار نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ٹی ایکٹ 2000 میں مذہبی طبقہ کے خلاف نفرت انگیز پیغامات بھیجنے والوں کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی مناسب اصول نہیں ہے جس کی وجہ سے صارفین بے خوف مذہبی اشتعال انگیزی پھیلارہے ہیں۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ مرکزی حکومت کو آئی ٹی ایکٹ 2000 میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی مذہبی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کےلیے رہنمایانہ اصول وضع کریں۔