اسرائیل نے گذشتہ پیر سے غزہ اور اردن کے علاقوں پر سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں۔ ان میں 256 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ایک تہائی بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ عام فلسطینیوں کے مکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
فلسطینی وزیر صحت مائی الکیلا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ مزاحمت اور اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں شہید ہونے والے افراد میں ایک تہائی بچے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی بچوں کی تنظیم سیو دی چلڈرن نے کہا کہ "غزہ پر اسرائیلی فوج کے جاری تباہ کن فضائی حملوں میں ہر گھنٹے میں تین بچے زخمی ہورہے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزیر صحت نے کہا ہے کہ ’’اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں پر حملوں میں سات ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوچکے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا ہے کہ ’’فی الوقت اسرائیلی حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی حقیقی تعداد کا تعیّن کرنا مشکل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہیں کہ اس کا کسی ہنگامی صورت حال سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
شہر میں اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کو ہٹایا جارہا ہے اور اس کے نیچے دبے ہوئے زخمیوں اور لاشوں کو نکالا جارہا ہے۔ اس کے پیش نظر امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ فضائی بمباری میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
وزیر صحت مائی الکیلا کا کہنا ہے کہ غزہ شہر میں زخمیوں کے لیے علاج معالجے کی دستیاب سہولتیں کم پڑتی جارہی ہیں اور ہم وہاں امدادی ٹیموں کی تعداد میں اضافے پر غور کررہے ہیں۔
سیو دی چلڈرن نے غزہ کی پٹی میں فوری طور پر تشدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے 58 فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل کے حالیہ تباہ کن فضائی حملوں سے غزہ کا بیشتر شہری ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے اور اس کے تقریباً چار لاکھ 80 ہزار مکینوں کو پینے یا عام استعمال کے لیے پانی دستیاب نہیں یا بہت کم مقدار میں دستیاب ہے۔