رمضان المبارک، دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک اور افضل مہینہ ہے۔ رمضان المبارک انفرادی و اجتماعی تربیت کا ایسا عملی نظام ہے جس میں رضائے الہٰی کے لئے ایثار و قربانی، برداشت، صبر، حوصلہ، استقامت اور بھوک، پیاس میں غرباءو مساکین کے ساتھ شرکت کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جب ایک مومن کی شخصیت کا خاصہ بنتی ہے اور بندے کا خالق و مخلوق سے رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔
ذیل میں اس ماہ مقدس سے جڑے ہوئے چند اہم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے گا:3 رمضان المبارک حضرت فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا کا یوم وفات
10 رمضان المبارک ام المومنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات 15 رمضان المبارک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم ولادت
17 رمضان المبارک حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال ۔اس کے علاوہ غزوہ بدر بھی 17 رمضان المبارک کو ہوا تھا۔
21 رمضان المبارک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت
27 رمضان المبارک (شب قدر) کو قرآن مجید نازل ہوا اور ہمارا پیارا پاکستان معرض وجود میں آیا۔
3 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات
آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی، حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اور مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت سیدہ کائنات فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی فاطمہ ہے۔ کنیت بنت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور القاب بتول، زہرا اور سیدہ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ اکثر بیمار رہنے لگ گئیں اور بالآخر 3 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی سے ملیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور رات کو جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
10 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ انہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگادیئے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لئے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں۔
15 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم ولادت
3 ہجری میں 15 رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پہلی اولاد تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سرتک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب)
17 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المومنین اور کنیت ام عبداللہ ہے چونکہ آپ رضی اللہ عنہا صاحب اولاد نہ تھیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن حضرت اسمائ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبداللہ اختیار فرمائی۔ (ابو داود، السنن، کتاب الادب)
آپ رضی اللہ عنہا 17 رمضان المبارک 58 ہجری کو رات کے وقت فوت ہوئیں۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہا کو آپ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
17 رمضان المبارک۔۔۔ غزوہ بدر:۔ اسلام اور کفر کی پہلی جنگ بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس بنائ پر تاریخ اسلام میں اسے جنگ بدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدر کی لڑائی سب سے زیادہ مہتم بالشان لڑائی ہے۔ اس معرکہ میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ ایک طرف غرور اور تکبر
میں مبتلا اسلحہ اور طاقت سے لیس لشکر کفار تھا جو تعداد میں بھی زیادہ تھا اور ظاہری اسباب اور وسائل بھی بہت زیادہ تھے جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل یعنی صرف 313مجاہدین جن میں نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ بزرگ اور بچے بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کے پاس صرف تین گھوڑے، چھ نیزے اور آٹھ تلواریں تھیں جبکہ سواری کے لئے 70 اونٹ تھے جبکہ لشکر کفار میں ایک ہزار کے لگ بھگ فوج، سو گھوڑے، سات سو اونٹ اور لڑائی کا کثیر سامان موجود تھا۔جنگ بدر میں کفار مکہ کے ستر سردار جہنم واصل ہوئے اور 70 کافر قید ہوئے۔ علاوہ ازیں 14 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح سے کفار کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کا غرور خاک میں مل گیا اور اسلام کو تقویت ملی۔
21۔ رمضان المبارک۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت:۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دعوت اسلام دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی اور آپ نے فوراً اسلام قبول کرلیا تھا۔ ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ (جامع الترمذی) حضرت علی رضی اللہ عنہ چار سال نو ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے۔ 19 رمضان المبارک 40 ھ 660 ءکو جب آپ فجر کی نماز کوفہ کی مسجد میں پڑھارہے تھے تو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم آپ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہوا۔ آپ کو کئی زخم آئے جس کے نتیجے میں 21 رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا۔
27 رمضان المبارک۔۔۔ نزولِ قرآن کی رات :۔ وہ راتیں جو فضیلت کی حامل ہیں اور جن میں کی گئی عبادت کو افضل قرار دیا گیا ہے وہ پندرہ ہیں۔ ان راتوں میں سے اعلیٰ اور اولین درجہ جس شب کو حاصل ہے وہ شب قدر ہے۔ قرآن میں اس کی عظمت و شرف کا بیان اس طرح ہوا ہے: ”بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا۔ (سورۃ القدر) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلۃ القدر عطا فرمائی ہے جو کہ پہلی امتوں کو نہیں ملی“۔ (دیلمی، مسند الفردوس)
یہ امر قابل غور ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت دینا سنت الہٰیہ ہے۔ راتوں میں لیلۃ القدر، دنوں میں جمعۃ المبارک، جگہوں میں کعبة اللہ اور مسجد نبوی اور ان سے بڑھ کر گنبد خضریٰ میں مزار اقدس کی جگہ اور کل مخلوق میں سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو فضیلت حاصل ہے۔
Best article