سفرنامہ لدھیانہ
متفرق مضامین

بے پناہ عقیدت کے ساتھ حاضری اور بے پناہ کوفت کے ساتھ واپسی

عقیدت اس لئے کہ سرہندیؒ پیرِطریقت ضرور تھے لیکن جو کارنامے انہوں نے انجام دیئے، ان کا طریقت سے کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ پیغمبری مشن یعنی دعوت و جہاد سے تعلق تھا۔ انہوں نے اکبراعظم کے ایجاد کردہ نئے مذہب ”دینِ الٰہی“ کو ختم کرنے جو جہاد کیا اس کے تفصیل کیلئے ہزاروں صفحات درکار ہیں، ایک ایسے دور میں جب دین الٰہی کے خلاف لب کھولنے پر گردن ماردی جاتی، انہوں نے اصل اسلام کو قائم کرنے ہر خطرہ مول لیا، جیل کی صعوبتوں سے گزرے، جھوٹے پیروں اور علمائے سو کو بے نقاب کرکے اصل دین کو قائم کیا۔یہ کام کسی پیر نے آج تک نہ کیا ہے نہ کرسکے گا۔ اسی لئے اگر انہیں مجدّدالف ثانی یعنی Reformer of the millinium کا لقب دیا گیا تو غلط نہیں دیا گیا۔ ہر داعی، ہر تحریکی، ہر مفکّر اور ہر ریفارمر کے لئے ایسی ہی تاریخی شخصیات ایک آئیڈیل ماڈل ہوتی ہیں، جن کے پاس حاضری دینے سے آج کے اکبر اعظموں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور لائحہ عمل بنانے کا محرّک پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے یہ سفر کیا۔ لدھیانہ میں شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان رحمانی مدظلہ سے ملاقات کرکے چندی گڑھ ایرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے، اور رات فتح گڑھ کے ہاسٹل میں قیام پذیر ہوئے جہاں شیخ احمدسرہندیؒ کی درگاہ ہے۔ آپؒ 1564 میں پیدا ہوئے، اور 60 سال کی عمر میں 1624 میں رحلت فرما گئے۔

افسوس لے کر کیوں لوٹے، یہ تفصیل مضمون کے آخری میں ہم پیش کریں گے، اس سے پہلے اس عظیم مجاہد کے وہ کارنامے بتانا ضروری ہے، تاکہ قارئین ہماری عقیدت اور ہمارے افسوس کو حق بجانب قرار دے سکیں۔

اکبراعظم پہلے پہل ایک نمازی اور اچھا مسلمان تھا، لیکن مزاج میں عیاشی ہونے کی وجہ سے محل میں ہندو راجپوت عورتیں اور ایرانی داشتاوں کی تعدا د بڑھتی گئی، اسی کے نتیجے میں دربار میں بھی ہندو اور ایرانیوں کا غلبہ بڑھتا گیا۔ خود اکبر زنّار پہننے لگا، تِلک لگاتا اور ہر روز گنگا جل پیتا۔ وہ رفتہ رفتہ دین بیزار ہوتا گیا۔ ایک ایرانی پیر نے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھادیا کہ ہر مذہب کی عمر ایک ہزار سال ہوتی ہے، اس کے بعد ایک نیا مذہب آنا ضروری ہوتا ہے۔ اسلام کے بھی ایک ہزار سال مکمل ہوچکے ہیں، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ آپ ایک نیا مذہب لائیں۔ اکبر کے نورتن ابوالفضل اور فیضی جو اپنے وقت کے جیّدعلماء تھے۔ انہوں نے اکبر کی بھرپور مدد کی۔ دینِ الٰہی کا آئیڈیا اکبر نے دیا، اس کو ابوافضل اور فیضی نے عملی جامہ پہنا دیا۔یہ ایسا دین تھا جو ہندو اور زرتشت ایرانیوں دونوں کے لئے قابلِ قبول تھا لیکن اسلام سے یہ راست ٹکراتا تھا۔ اس لئے اسلامی شعار کا دربار ہی سے نہیں ملک سے بھی نکالنا ضروری تھا۔ وہی اکبر نے کیا، اور وہ تمام کام کئے جو آج کے بلڈوزر چلانے والے فاشسٹ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں۔اکبرنے گائے کے ذبیحہ پرپابندی لگائی، جزیہ معاف کردیا، نئی مسجدوں اور مدرسوں کے قیام اور اشاعتِ اسلام سے دہشت گردی کا خطرہ کہہ کر یہ سب بند کروادیا۔ صرف دینِ الٰہی کی تبلیغ ہونے لگی۔ جتنے پیر اور مولوی بیروزگار ہوئے، وہ یا تو دینِ الٰہی کے مبلغ بن گئے یا پھر سلوک اور حصولِ عرفاں کے نام پر مشرکوں اور ایرانیوں کے طور طریق اسلام میں شامل کرکے خوب کمانے لگے۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں بھی اپنے بزرگ اولیاء و صالحین کو بھگوان بنانے لگے۔ یہی وہ دور تھا جب مہارانی جودھابائی اکبراعظم سے شادی کرکے محل میں شادی کی وہ تمام خرافات لے کر آئی جو آج بھی مسلمان معاشرے میں رائج ہیں یعنی منگنی، سانچق، تحفے، سلامی، بارات اور بارات کے کھانے، وزنی پھولوں کے سہرے اور ہار، ناچ گانے وغیرہ۔آج یہی رسمیں باقی ہیں اور انہی کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی اور معاشی بربادیوں سے تباہ ہورہا ہے۔

یہاں سے شیخ احمد سرہندی ؒ کا جہاد شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ کہ وہ نقشبندی مجدّدی سلسلے کے مستند پیر تسلیم کئے جاچکے تھے۔ ہزاروں لوگ سلوک و عرفان کے حصول کے لئے ان کے پاس آنے لگے تھے۔ لیکن جب دین کو انہوں نے خطرے میں دیکھا تویہ سب چھوڑ کر دین کو قائم کرنے اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ بقول انہی کے ”جہاد سے بڑا کوئی سلوک و عرفان کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا“۔ اسی لئے قرآن میں تصوف کا کوئی نام و نشان نہیں البتہ دعوت، جہاد و قتال کا تذکرہ بار بار آتا ہے۔سرہندی کے اہم کارنامے جن کی وجہ سے انہیں مجدّد الف ثانی کا لقب دیا گیا، ملاحظہ فرمایئے۔

  • ۱۔ بادشاہ اور حکومت کی اصلاح

سرہندیؒ نے خانقاہ سے نکل کر بادشاہ اور تمام وزیروں، امرا و رئیسوں، فوجی جرنیلوں، اور وہ تمام جو حکومت پر کسی نہ کسی طرح کا اثر رکھتے ہوں، ان کی اصلاح کے کام کا آغاز کیا۔ خطوط، ملاقاتوں اور شہرشہر گاؤں گاؤں جاکر علماسے، مولویوں اور پیروں سے ملاقات کے ذریعے انہوں نے بہت دلیری سے اکبر کی دینِ اسلام سے بغاوت سے خبردار کیا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ بنگال، جون پور، پورب کے علاقوں میں لوگوں نے تلواریں نکال لیں اور نعرہ دیا کہ اکبر مرتد ہوچکا ہے، اس کے خلاف تلوار اٹھانا فرض ہے۔ اکبرنے فوج بھیجی اور کئی علما اور عام مجاہدین کو گرفتار کروایا اور انہیں بدترین عبرتناک سزائیں دی گئیں۔ لیکن اس کا ردعمل خود اکبر پر یہ ہوا کہ اس کو محسوس ہوگیا کہ اس کا دینِ الٰہی سمجھدار لوگ کبھی قبول نہیں کرینگے۔ سرہندیؒ کو گرفتار کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ مرہٹوں یا راجپوتوں سے جنگ تو جیت سکتا تھا، لیکن اگر خود اس کی اپنی عوام اگر اندرونی طور پر بغاوت کردے تو اس کے لئے حکومت چلانا ناممکن ہوجاتا۔ آپ ؒ کے اسی جہاد کی وجہ سے وہ وقت بھی آیا جب اکبر جو ساری زندگی دینِ الٰہی کا کلمہ پڑھتا رہا، اس کو محسوس ہوگیا کہ اب موت کا وقت آچکا ہے تو دینِ الٰہی پر مرنے سے ڈر گیا اور آخری وقت مفتی صدرجہاں کو کلمہ پڑھوانے کے لئے بلوایا۔ آج بلڈوروں کے اِ س دور میں اگر بڑی بڑی درگاہوں اور خانقاہوں کے سجّادے اسی جہاد کو لے کر اٹھتے تو دشمن کو اوقاف کی جائدادوں پر قبضے یا مساجد و مدارس کومنہدم کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ مگر ان کی ایک بڑی تعداد نے جو انہی چندے کے صندوقوں کی آمدنی سے کروڑہا روپیہ کما چکی ہے اُس نے فاشسٹ حکمرانوں سے ہاتھ ملا لیا۔

قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اکبر انتقال کرگیا اور اس کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ خود جہانگیر سرہندیؒ سے متاثر ہوچکا تھا۔ اس نے شراب کو ممنوع کیا، گائے ذبیحہ سے پابندی ہٹائی، کئی اسلام شعار کو پھر سے جاری کرکے غیروں کے شعار جیسے جشنِ نوروز، محل میں پوجا وغیرہ کو بند کیا۔ دربار کے کئی اہم افراد سرہندی ؒ کے قائل ہوچکے تھے، ان تمام کی مدد سے مدرسوں اور اشاعتِ اسلام کے کام پھر سے شروع ہوگئے۔

لیکن جلن اور حسد کے مارے ہر دور میں ہوتے ہیں۔ کچھ نے جہانگیر کے کان بھرے کہ سرہندیؒ دربار میں داخل ہونے پر بادشاہ کو سجدہئ تعظیمی نہیں کرتے جبکہ اکبر کے سامنے اور خود جہانگیر کے سامنے بڑے بڑے علما، پیر بھی سجدہ تعظیمی کرتے آئے ہیں، یہ بغاوت کی نشانی ہے اور اس کی سزا موت ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے سرہندیؒ کو دربار میں طلب کیا۔ وہ تشریف لائے اور سجدہئ تعظیمی کے بجائے مصافحے کے لئے آگے بڑھے۔ اُس نے دربار میں سب کے سامنے بے عزتی سے بچنے کے لئے سرہندیؒ کو بہت تلقین کرنے کی کوشش کی کہ سجدہ تعظیمی کرلیں۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ سجد ہ چاہے جس قسم کا بھی ہو، صرف اللہ کے لئے جائز ہے۔ اس پر جہانگیر کو اُنہیں سزائے موت دینے کی ہمت تو نہ ہو سکی، البتہ اس نے سرہندیؒ کو ایک سال کے لئے گوالیا ر کے قلعہ میں قید کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شر میں بھی خیر رکھا ہے۔ آپ ؒ نے تمام قیدیوں کو دین کی دعوت دی اور ایک ایک کرکے سارے قیدی مشرّف بہ اسلام ہوگئے۔

  • ۲۔ گمراہ صوفیوں اور مولویوں کی اصلاح

وہ تمام موقع پرست جھوٹے صوفی اور مولوی جو حقیقی دین و شریعت سے نابلد تھے، جو اکبرکے دور میں شرک و بدعات کو اسلام میں داخل کرکے ابن عربی کے فلسفہ ”وحدت الوجود“ کا نعرہ دینے لگے تھے۔ جس کا مقصد اصل شریعت سے آزادی اور طریقت کے نام پرشریعت سے زیادہ پرکشش منہج جس میں شفاعت اور مغفرت کی گیارنٹی ہو، اسے پیدا کرکے پیری مریدی کو مضبوط کرنا تھا، سرہندیؒ نے ان تمام پر دلیل کی بنیاد پر حجت قائم کردی، اور انہیں تائب ہونے پر مجبور کردیا۔وحدت الوجود کا نظریہ مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں مقبول ہوا کیونکہ اس طرح کا تصوف تو مشرکوں کے لئے اور ایرانیوں کے لئے مرغوب تھا۔لیکن اسلام کے عقائدو شریعت کے حق میں زہر تھا، سرہندیؒ نے اس کے مقابلے میں ”وحدت الشہود“ کا نظریہ پیش کیا، اور منوایا۔

سرہندیؒ نے شریعت کی پاپندی نہ کرنے والے علما صوفیا اور علما کو اسلام کا باغی قرار دیا۔ ان کے پیغام کو سمجھنے کے لئے ان کے لکھے ہوئے خطوط جو کئی جلدوں میں ہیں، پڑھنا لازمی ہے۔ سرہندی نے بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ کے نظریہ کو رد کیا۔ فرمایا کہ جس طرح زہر زہر ہوتا ہے، اچھا یا برا نہیں ہوتا اسی طرح بدعت بدعت ہوتی ہے، اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ اس طرزِ فکر کو انہوں نے دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی قرار دیا۔ (مکتوب 186 بنام خواجہ عبدالرحمان کابلی)

سرہندیؒ کے بڑے کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے تحریک اتباعِ سنّت قائم کی۔کہا کہ زندگی کے ہر شعبے میں کسی پیریا مرشد یا استاد یا اکابرین کی اتباع کے بجائے صرف نبی ﷺ کی سنت کو قائم کرنا لازمی ہے۔ آج ہر مشائخ کے لئے اتباعِ سنت کی مہم اپنانا ناگزیر ہے۔ مشائیخین کی اکثریت وہ ہے جس نے اپنے سلسلہئ طریقت کو شریعت بلکہ قرآن و سنّت پر بھی فوقیت دے دی ہے۔ درگاہوں پر جو تماشے ہیں وہ سارے قرآن و سنّت و حدیث کے خلاف بغاوت ہیں۔ سرہندی نے اہلِ تصوف کو خطوط میں جو تنبیہات فرمائیں وہ یہ ہیں

ایک فرض نماز ہزاروں چِلّوں اور مراقبوں سے بہتر ہے، بلکہ پوری عمر کی ترکِ دنیا سے بہتر ہے۔

اپنے فرزند کو ایک مکتوب میں فرماتے ہیں ”مجھے پیری مریدی کے لئے نہیں پیدا کیا گیا، قدرت کو مجھ سے کچھ اور کام لینا ہے۔ اُس کام کے مقابلے میں پیری مریدی ہیچ ہے۔ منصب نبوت اگرچہ ختم ہوچکا ہے، لیکن انبیا کے تابع داروں کے لئے انبیا ہی کا کام تبیعت اور وراثت میں ملا ہے۔“

بدقسمتی سے یہ سب سرہندیؒ کی زندگی تک ہی رہا۔ اس کے بعد صرف ان کی درگاہ پر ہی نہیں، پورے برصغیر میں کونے کونے میں یہی پیری مریدی بنامِ تصوف جاری ہے۔

  • ۳۔ دوقومی نظریہ ۔ برہمنزم کے خطرات سے تنبیہ

سرہندیؒ نے تمام جرنیلوں اور اہم عہدے داروں کو خطوط کے ذریعے آگاہ کیا کہ جس طرح ہندوؤں نے اپنی عورتوں کو محل میں داخل کرکے اکبر کے دربار کو عیاشی اور شرک سے معمور کردیا، ایک دن وہ مسلمانوں کا خاتمہ بھی کردیں گے۔ بدھ مت کے لاکھوں پیروؤں کا انجام یاد دلایا جو عیّار برہمنوں کے ہاتھوں ہوا تھا، پھراِن برہمنوں نے بدھ مت کی تمام مندروں پر قبضہ کرکے اپنی مندریں بنوادیں، یہ حشر وہمسجدوں کے ساتھ بھی کرینگے۔ آج جو کچھ ہورہا ہے تین سو سال پہلے سرہندیؒ نے اس کی پیشن گوئی فرمادی تھی۔

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لم یلد ولم یولد ہے یعنی نہ وہ کسی بیٹا ہے اور نہ کوئی ان کا والد۔ جبکہ سارے ہندو دیوی اور دیوتا کسی نہ کسی ماں باپ کو پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے رام اور رحمان ایک ہیں کہنا غلط ہے۔یہ بھی فرمایا کہ اگر مشرکوں کو بڑھاوا دو گے تو ایک دن اسلام اُن کے دھرم میں مدغم ہوجائیگا۔ اور مسلمان پسپا ہوجائیں گے۔

اب رہا سوال کہ ہم ایک رنج اور کوفت لے کر حضرت ؒ کی قبر سے کیوں لوٹے، تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم اس مجاہدعظیم کی قبر پر یہ توقع لے کر گئے تھے کہ وہاں کے وارثینِ مجاہدعظیم میں حضرتؒ کی مجاہدانہ تعلیمات کو آگے بڑھانے کی جستجو ہوگی۔ کتابوں کے اسٹانڈ پر حضرتؒ کے کارناموں پر کئی کتابیں ہوں گی۔ مکتوبات کی جلدیں ہوں گی، لیکن وہاں کتابیں جو پائی گئیں وہ مکمل نقشبندی مجدّدی عملیات یا سلوک و عرفان پر تھیں۔ موضوعات کچھ اس طرح تھے۔

ؑمجدّد الف ثانی غوث اعظم ؒکے نائب تھے۔

غوث اعظم ؒ تقدیروں کو پلٹ سکتے ہیں۔

میلاد و عروس کی محفلیں جائز ہیں۔

اولیا کرام کی فضیلت۔ کعبہ ان کے طواف کے لئے حاضر ہوتا ہے۔

ان کی قبر پر جاکر ایسا نہیں لگتا کہ آپ ایک مجاہدِاعظم کی قبر پر آئے ہیں جس نے اکبراعظم جیسے ظالم بادشاہ سے ٹکر لی۔ بلکہ لگتا ہے کہ وہی ہر شہر بلکہ ہر نکّڑ کی درگاہ پر آئے ہیں جہاں وہی عقیدت سے حاضری، مراقبے، چادر، منّتیں مرادیں لے کر آنے والوں کا ہجوم جن کو بیٹھی جگہ شفاعت، مغفرت، یا اولاد، نوکری وغیرہ درکار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جتنے مشرکانہ عقائد کا سرہندی نے سر کچلا، آج پوری کی پوری زندہ ہیں۔ قبر کے پاس ہی رکھا ایک صندوق ہے جو کہ ہندوستان کی ہر درگاہ پر ہوتا ہے، اس سے سرہندی کے اصل مشن کو تو کوئی آگے نہیں بڑھاتا لیکن متولی اور سجادے اپنے بنک اکاؤنٹ اور کاروبار بڑھا کر کروڑپتیوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں، اور ED or NIA یا ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے بچنے کے لئے طاقتور دشمنوں سے غلامی کا سودا کرلیتے ہیں۔

آج اگر سرہندیؒ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ جن بادشاہوں کے آگے انہوں نے سجدہ تعظیمی کرنے سے انکار کرکے جیل کی سزا بھگتی، آج صرف ان کی نہیں بلکہ ہندوستان کی ہر درگاہ پر سجدہ تعظیمی جاری ہے تو وہ جنہوں نے اکبر کے خلاف جتنا جہاد کیا، اس سے کہیں زیادہ بڑا جہاد ان قبرپرستوں کے خلاف کرتے۔