یہ آزادی جھوٹی ہے
حالات حاضرہ

یہ آزادی جھوٹی ہے

16 /اگست 1947ء کو بمبئی کی شاہراہوں پر ایک جلوس آزاد میدان کی طرف رواں دواں تھا۔ اور ان کا نعرہ تھا”یہ آزادی جھوٹی ہے“ اس جلوس کی قیادت کررہے تھے مہاراشٹر کے عظیم مزدور رہنما دلت تحریک کے ہیرو، عوامی ادیب، چھتیس کتابوں اور ناولوں کے خالق انابھاؤ ساٹھے۔ 15/اگست 1947ء کو انگریز بھارت چھوڑ کر چلے گئے۔ اور ایسی افواہ اڑائی گئی بھارت آزاد ہوا۔ اس آزادی سے ملک آزاد ہوا۔ مگر ملک کی تمام رعایاکو آزادی نہیں ملی۔ اس دن سے آج تک اس آزادی پر کئی سوال اٹھائے گئے اور قائم کئے گئے۔

انگریزوں نے بھارت کوغلام بنایا۔ جب غلامی کا احساس غلاموں کو ہوا، انھوں نے اپنی آزادی کی تحریک شروع کی۔ ہر غلام نے اپنے آقا کی غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی۔ انگریزوں نے بھارت کومسلمانوں سے چھیناتھا۔ مسلمان انگریزوں سے بھڑ گئے۔ برہمن اپناورچست (اقتدار) برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کرنے لگے۔ ذات پات کے نظام کی وجہ سے یہاں کے مولنواسی (ایس سی، ایس ٹی، اوبی سی) برہمنوں کے غلام تھے۔ یہ غلامی بھارت میں مسلمانوں اور انگریزوں کی آمد سے پہلے چلی آرہی تھی۔ برہمن اپنی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلمان اور مولنواسی ہرگروہ اپنے آقا سے برسرِ پیکار تھا اپنی آزادی کے لئے۔ ان سب آزاد ی کی جدوجہد اور تحریکوں کاجائزہ یہ بتاتاہے کہ مولنواسی اور مسلمانوں کی آزادی جھوٹی ہے۔

(۱)مسلمانوں کی تحریک ِ آزادی:۔ انگریزوں نے بھارت کو مسلمانوں سے چھینا، اسی لئے مسلمان ہی نے سب سے پہلے اس تحریک کو شروع کیا۔1757ء میں سراج الدولہ نے جنگ پلاسی، 1764ء میں جنگ بکسر کی شکست پر ختم ہوگئی۔ دکن میں حیدرعلی اور ان کے فرزند ٹیپو نے جم کر انگریزوں کامقابلہ کیا۔ آخر کار 1799ء میں سقوط سری رنگاپٹنم پر ختم ہوگئی۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، (1703تا1763) نے تحریک آزادی کے لئے نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ ”فک کل نظام“یعنی”ہر ایک نظام کوشکست دینا اور اس میں انقلاب برپا کرنا“(بحوالہ جدید دور میں فکرِ ولی اللہ کی اہمیت، مرتب۔ مولانا بشیر امین، صفحہ 114)

اس تحریک ِ آزادی کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا دور 1731تا1763، شاہ ولی اللہ اور ان کے ساتھی، دوسرا دور 1763تا1831۔ خانوادہ ء شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز وغیرہ۔ سید احمد شہید اور اسمعیل شہید 1831؁ء میں بالاکوٹ کے معرکہ میں شہادت پر ختم ہوتا ہے۔ تیسرا دور 1831تا1857غدرکے روپ میں ظاہر ہوا۔ شاہ محمد اسحق، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی کی کوششیں قابل ذکر ہیں۔ 1831”فک کل نظام“ کی تحریک کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ مگر یہ تحریک بالاکوٹ کی شہادت گاہوں میں دفن نہیں ہوئی۔ بلکہ چراغ سے چراغ جلے۔ ملک کے طول وعرض میں آزادی کی تحریک پھیل گئی۔

مؤرخین کے دعوؤں کے مطابق 66 خلفاء نے آپ کے اس مشن کوزندہ رکھا۔ اپنے اپنے مرکز سے مشعل ایمان وآزادی کی تحریک چلارہے تھے۔ (بحوالہء ”تاریخ دعوت وجہاد“ عبیداللہ فہد فلاحی، صفحہ 164)
ان کی کوششوں کا نتیجہ 1857ء میں غدر کی شکل میں ظاہر ہوا۔ چوتھا دور 1884ء سے 1947ء۔ غدر کی ناکامی اور شکست خوری نے مسلمانوں پر پژمردگی اور قنوطیت طاری ہوچکی تھی۔ اسی لئے میدان جنگ سے ہٹ کر علمی میدان میں اپنے دین اور ایمان کوبچانے کے لئے بڑی بڑی دینی درس گاہیں قائم کیں۔ اس دور میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، اسیر ِ مالٹا اور ان کے ساتھی عبیداللہ سندھی قابل ذکر ہیں۔ بڑی منظم کوشش کی۔ حضرت شیخ الہند 1915ء کو حجاز تشریف لے گئے۔ تاکہ اسلامی دنیا سے مدد حاصل کرکے انگریزی حکومت کو برخواست کرکے متبادل حکومت قائم کی جائے۔ ریشمی رومال کی تحریک اسی کاحصہ ہے۔ سرحد پر عبوری حکومت قائم کی۔ شیخ الہند کو مسلم دنیا سے مدد کے بجائے قید انگریز ملی۔ ”15/فروری 1917ء کو طائف میں گرفتار کرلئے گئے۔ اور بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا روانہ کردئے گئے۔ جو برطانیہ کے سیاسی اور جنگی قیدیوں کامرکز تھا۔ وہا ں سخت تکالیف کی زندگی گزارنے کے بعد 8/جون 1920ء، تین سال 7 مہینے کی قید کے بعد بمبئی پہنچاکر آپ کو رہا کردیا۔ (دارالعلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ، مولانا ابوالقاسم نعما نی،شیخ الہند اکاڈمی دیوبند، صفحہ نمبر 421اور 422)

حضرت شیخ الہند جب مالٹا سے واپس ملک آئے تو ”ملک کی آزادی میں سرگرم حصہ لیا، مالٹا میں قید کے زمانے میں حضرت شیخ الہند نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ہندوستان کی آزادی صرف ایک قوم، اپنی کوشش سے حاصل نہیں کرسکتی۔ لہٰذا آپ نے انقلاب اور تشدد کی پالیسی بدل کر ہندوستان کی آزادی کو ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں آپ نے نیشنلسٹ طاقتوں (کانگریس) کا ساتھ دیا۔ (بحوالہ۔ ایضاً۔صفحہ 442)

”فک کل نظام“ تبدیلی نظام کی تحریک حصول ِ آزادی کی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ نیشنلسٹ طاقتوں کے ساتھ دینے کے چکر میں ہندومسلم اتحاد کے نام پر وہ کانگریس کاحصہ بن گئے۔ کانگریس نیشنلسٹ پارٹی نہیں تھی۔ وہ تو خالص برہمنوں کی پارٹی تھی۔ اس طرح برہمنوں کو بڑی طاقت حاصل ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں ملک 15/اگست کو آزاد ہوا۔ اور تقسیم بھی ہوا۔ اس سے مسلمانوں کی تحریک ِ آزادی بھی تقسیم ہوگئی۔ اور جو کچھ بچاتھا وہ کانگریس میں ضم ہوگئی۔ جس کا یہ نقصان ہواابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں ”ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہواکہ جماعت ہے، اور اما م نہیں۔ افراد ہیں، اور نظام نہیں۔ (بحوالہ نقوش اقبال۔ ابوالحسن علی ندوی۔ صفحہ 214) اس طرح مسلمانوں کی تحریک، تنظیم اور قیادت سے محرومی پر ختم ہوئی۔ اور غلامی پائیدار ہوگئی۔(۲) برہمنوں کی تحریک ِ آزادی:۔ 1761ء میں پیشواؤں کی پانی پت میں ہار کے بعد 1818ء میں بھیما کورے گاؤں کی ہار سے برہمنوں کو بڑا دھچکا لگا۔ 1818؁ء میں پیشوائی ختم ہوگئی۔ بہٹور کے نانا صاحب کو کانپور میں قید کردیاگیا۔ مگر وہ قیدِ انگریز میں بھی خاموش نہیں رہے۔ دیش بھر میں بغاوت برپا کرنے کے لئے کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کو بری طرح سے کچل دِیا۔

سنہ 1857ء کے غدر برپاکرنے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس بغاوت کے بارے میں سرسید احمد خان ”اسباب بغاوت“ میں کہتے ہیں،”غدر کیا ہوا، ہندوؤں نے شروع کیا۔ مسلمان دِل جلے تھے، وہ بیچ میں کودپڑے“ (بحوالہ حیات جاوید، صفحہ نمبر 265) برہمن سہم گئے۔ 28سال تک کوئی تحریک شروع نہیں کی۔ 1885؁ء میں انگریزوں کی مددسے اس کاقیام عمل میں لایا۔ اسی لئے اس زمانے کی کانگریس کے رہنما ٹائیگور، راناڈے، گوکھلے، فیروز شاہ مہتا، دادابھائی نوروجی، سب نے ایک زبان ہوکر کہا”بھارت میں انگریزوں کی حکومت کا قیام منشائے خداوندی سے قرار پایاہے“

اسی کانگریس نے اپنے قیام کے 44سال بعد تک اس دیش کی آزادی کے لئے کبھی ایک ریزولیشن تک پاس نہیں کیا۔ اسی لئے برہمن دیش کی آزادی کے لئے کبھی نہیں لڑے۔ وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کام کرتے رہے۔ اس دور کے باشعور قائدین نے کانگریس کے بارے میں کہاسرسید احمد خان نے کہا”کانگریس بنگالی بابو، اور پونے کے برہمنوں کی جماعت ہے“(حیات جاوید، صفحہ 411)جیوتی باپھلے کہتے ہیں ”یہ کانگریس سبھا نہیں برہمن سبھا ہے“ پیریار راماسوامی، نے گاندھی جی کے منہ پرکہا”آپ جو کام کرنے جارہے ہیں، اس سے اس دیش میں ڈیموکریسی نہیں بلکہ برہمنوکریسی آئے گی“ ان کاکہنا سچ ثابت ہوا۔

جب کبھی انگریزوں نے یہاں کے شودروں، اتی شودروں کو کچھ حقوق دینا چاہتے، تو اس کی مخالفت کانگریس، کرتی۔ اس کی ایک دو نہیں کئی مثالیں تاریخ میں درج ہیں۔ پہلی مثال۔ 1918میں ساوتھ برو کمیشن، بھارت آیا۔ تاکہ یہاں کی عوام کو قانون ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ اس بات کو برہمن کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ کانگریس رہنما تلک نے عوامی جلسے میں اعلی الاعلان کہا”تیلی، تمبولی اور کن بھٹوں (کنبی، کسان) کو قانون ساز اداروں میں جاکر ہل چلانا ہے، یاتیل نکالنا ہے؟“مطلب یہ کہ ان کو کوئی بھی نمائندگی نہ دی جائے۔ صرف برہمن ہی اس کے حق دار ہیں۔

دوسری مثال 1932ء میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے نتیجہ میں انگریزوں نے ”کمیونل ایوارڈ“ ڈکلیر کیا۔ اس میں باباصاحب امبیڈکر کے بہت سارے مطالبات مانے گئے تھے۔ کانگریس کے عظیم رہنما بابائے قوم گاندھی جی کے تن من میں آگ لگ گئی۔ اور جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوگئے۔ تاکہ شودروں کو انگریزوں کے ذریعہ دئے گئے حقوق سے محروم کیاجاسکے۔ معلوم ہوا، نام ونہاد اہنساپرم دھرم، کے پجاری کی بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اور مہاتما کی مقدس لنگوٹ اُتر گئی اور وہ مادر زاد برہنہ ہوگئے۔ انگریزوں سے لڑکر مسلمانوں کی مددسے باباصاحب امبیڈکر نے جو حقوق کمیونل ایوارڈ کی صورت میں حاصل کئے تھے، ان پھلوں سے اپنا اپواس جوڑا۔ اور چھلکے امبیڈکر کے منہ پر پھینک دئے۔

تیسری مثال1947ء کو ملک آزاد ہوا۔ 1952ء تک نہرو بغیر الیکشن کے نامزد وزیر اعظم رہے۔ جب 1952ء میں پہلی عوام الیکشن ہوا، نہرونے 60فیصد برہمنوں کوٹکٹ دئے اور 48فیصد برہمن چن کرآئے۔ اس طرح قوم پرست نہرو بچوں کے چاچا، سیکولرازم کے ہیرو یہ برہمن تو بڑا برہمن پرست نکلا۔ اس طرح بھارت کی پارلیمنٹ پر برہمنوں کا قبضہ ہوگیا۔ پارلیمنٹ پر قبضہ کا مطلب قانون بنانے، قانون نافذ کرنے، ملک کا ایک نظام چلانے کاحق دیش کے جملہ وسائل ان کے قبضے میں آگئے۔ اس طرح بلاشرکت غیر ملک برہمنوں کے ہاتھ میں آگیا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار بھارت کی عوام کو منتقل ہونا چاہیے تھا۔ مگر وہ برہمنوں کو منتقل ہوا۔اس طرح بھار ت کے غلاموں کی غلامی جیسی تھی ویسی رہی۔ برہمن آزاد ہوگئے، اور ان کی تحریک ِ آزادی کامیاب ہوگئی۔

ایس سی، ایس ٹی، اوبی سی یعنی مولنواسیوں کی تحریک آزادی:۔ بھارت میں ذات پات کا نظام ورن ویوستھا نے ایسا استحصالی نظام بنایا، اس سے آبادی کاصرف 15%کوہی فائدہ حاصل ہوگا۔ اور 85فیصد عوام کونقصان ہی نقصان۔ ایک گروہ فائدہ اٹھانے والا، اور دوسرا گروہ نقصان میں رہنے والا۔ استحصالی نظام کو دوام بخشنے کے لئے پیدائشی برتری، وبستی کااٹل قانون امتیاز کو مذہبی تقدس اور خدائی نظام بتایاگیا۔ اس کے لئے نظریہ تناسخ (پنرجنم) کے فلسفے اور کرما سدھانت کے نظریہ سے یہ یقین پید اکیاگیا، وہ پستی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اور اونچے طبقات برتری کے لئے۔ ان کی غلامی خدائی انعام، خداکا دِیا ہوا تحفہ ہے اس لئے اس کی مخالفت گناہ ِ عظیم ہے۔ تفریق وامتیازات ہندو کلچر کی رگ رگ میں پیوست ہیں۔ جس کے ہوتے ہوئے پستہ اقوام کو حقیقی آزادی ملنا ناممکن ہے۔(بحوالہ خطبہ ء مدراس، مولانا سید مودودی، صفحہ 25) ”ہندوفلسفے کا انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو صاف نظر آئے گاہندودھرم، مساوات کا دشمن، آزادی سے نفرت کرنے والا، بھائی چارگی کامخالف ہے“ (بحوالہ ڈاکٹر امبیڈکر، تقاریر اور تحریر، جلد نمبر iii، پارٹ نمبر ایک، صفحہ نمبر 66)

اسی بات کو وی ٹی راج شیکھر ایڈیٹر ”دلت وائس“نے اپنی کتاب ”برہمن ازم“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں، جو کوئی مساوات، انصاف، بھائی چارہ کو قائم کرنے کے لئے تحریک چلائے گا، اس کا رویہ یقینا برہمن مخالف ہی ہوگا“مولنواسیوں کی تحریکوں کانشانہ ہمیشہ برہمن ازم ہی رہا ہے۔ اس بارے میں ان کا رویہ بڑا تلخ وکڑواہٹ سے بھرا ہوا ہے۔ ان کا فرداً فرداً جائزہ ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ اشارتاً یوں کہا جاسکتا ہے۔ نموشودراتحریک بنگال ”ہندودھرم چھوڑ کر کوئی بھی دھرم اختیارکرلو، یہ آزادی کامنتر ہے“۔ پیریار راما سوامی ٹمل ناڈو”تبدیلی ء مذہب کی تحریک ہمارے لوگوں کی تحریک ِ آزادی ہے“ جیوتی باپھلے ”جتنی جلدی ہوسکے، اس نظام سے آزادی حاصل کرلو۔ یہ موقع انگریزوں کے رہنے تک حاصل ہے“ باباصاحب امبیڈکر ”میں ہندوپیدا ہواہوں، جومیرے بس میں نہیں تھا۔ میں ہندونہیں مروں گا“ یہ باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ برہمن اور برہمنوں کے بنائے ہوئے ورن ویوستھا(ذات پات کے نظام) کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا مولنواسیوں کو غلام بنانے والے، برہمنی نظام سے آزادی کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ان کی مسلسل کشمکش جاری ہے۔ دوسری طرف مسلمان بھی آزادی کے بعد غلام ہوگئے۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ تحریک، تنظیم اور قیادت سے محروم ہوگئے۔ ایسے وقت میں اگر ہم سیکولر اور کمیونل کے چکر سے نکل کر غلام وآقا، ظالم ومظلوم، کے نقطہ نظر سے حالات کاتجزیہ کریں اور دوست اوردشمن کی پہچان کرکے کس کاساتھ دیناہے، طئے کریں۔تو غلام مولنواسی اور غلام مسلمانوں کااتحاد قائم ہوگا۔ اس لئے یہ جھوٹی آزادی سچ میں تبدیل ہوجائے گی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے اس رویہ کے بارے میں کہتے ہیں،

مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنارپوش
سطوت ِ توحیدقائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں