حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے – ام المؤمنين حضرت صفیہ بنت حُیَی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : اللہ کے رسول ﷺ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف میں تھے – میں رات میں آپ سے ملاقات کرنے کے لیے گئی – [ ام المؤمنين کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس تھا – ] کچھ دیر تک بیٹھ کر آپ سے گفتگو کی – جب واپس آنے لگی تو آپ نے فرمایا : ٹھہرو ، میں تمہیں باہر تک چھوڑ دوں – آپ میرے ساتھ مسجد کے دروازے تک آئے – وہاں سے انصار کے دو آدمی گزر رہے تھے – انھوں نے آپ کو دیکھ کر اپنی رفتار تیز کردی – آپ نے انہیں پُکارا : ” اِدھر آؤ ، یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہیں – “ انھوں نے کہا : ” سبحان اللہ ، اے اللہ کے رسول ! کسی دوسرے کے بارے میں تو ہم بدگمانی کر سکتے ہیں ، لیکن آپ کے بارے میں کسی طرح کی بدگمانی کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے؟ “ آپ نے فرمایا : ” شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح گردش کرتا رہتا ہے – مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی نہ ڈال دے – “ (بخاری : 2035 ، مسلم : 2175)
یہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتبِ حدیث میں بھی مروی ہے – اس سے دین کی متعدّد اہم تعلیمات مستنبط ہوتی ہیں :
(1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حالتِ اعتکاف میں اپنے گھر والوں سے مل سکتا ہے اور ان سے گفتگو کر سکتا ہے – مسنون اعتکاف یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے آپ کو مسجد میں محبوس کرلے – وہاں رہتے ہوئے زیادہ اوقات عبادت میں گزارے ، نوافل پڑھے ، قرآن کی تلاوت کرے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، دینی کتابوں کا مطالعہ کرے – ان کے علاوہ بھی وہ دیگر کام انجام دے سکتا ہے –
(2) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت مسجد میں جاسکتی ہے ، نماز پڑھنے کے لیے ، مسجد میں منعقد ہونے والے کسی دینی پروگرام میں شرکت کے لیے ، مسجد میں مقیم کسی شخص سے ملاقات کرنے کے لیے – اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے دروازے عورت پر بند کردینا درست رویّہ نہیں ہے –
(3) اس سے زوجین کے درمیان قریبی تعلق ، انس و محبّت ، خبر گیری اور دیکھ بھال کا بھی اشارہ ملتا ہے – حضرت صفیّہ اپنے شوہر (اللہ کے رسول ﷺ) سے ملاقات کے لیے گئیں – اور آپ نے انہیں بیٹھے بیٹھے رخصت کردینے کو کافی نہیں سمجھا ، بلکہ مسجد کے دروازے تک انہیں چھوڑنے گئے –
(4) اس سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے – ایک مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور جب تک اس کے پاس پختہ ثبوت نہ ہوں وہ کسی کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کرے – بدگمانی ایک بری خصلت ہے – قرآن و حدیث میں اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے – اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا كَثِيۡرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ (الحجرات : 12)
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ “
آج کل مسلم سماج میں بھی یہ بیماری عام ہے کہ بغیر کسی پختہ ثبوت کے کسی کے بارے میں بدگمانی قائم کرلی جاتی ہے – بدگمان شخص میں اتنی ہمّت نہیں ہوتی کہ وہ متعلّق شخص سے براہ راست رابطہ کرکے تحقیق کرلے کہ اُس کے بارے میں اسے جو بات معلوم ہوئی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ، اس کے بجائے وہ اُس بات کو دوسروں سے کہتا پھرتا ہے ، چنانچہ انہیں بھی بدگمان کردیتا ہے – اس طرح مسلسل غیبت کا مرتکب ہوتا رہتا ہے – اسی لیے سورۂ حجرات کی مذکورہ بالا آیت میں بدگمانی سے منع کرنے کے ساتھ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے ، معاملات کی ٹوہ میں لگنے ، تجسّس کرنے اور چُھپی ہوئی باتوں کی کھوج کرید کرنے سے روکا گیا ہے –
(5) اس سے ایک اہم استنباط یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی موقع پر کسی شخص کو اندیشہ ہو کہ دوسرے لوگ کسی معاملے میں اس سے بدگمان ہوجائیں گے تو اسے خود آگے بڑھ کر ان کی بدگمانی دوْر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے – یہ سوچنا کافی نہیں کہ میں حق پر ہوں ، دوسرے لوگ میرے بارے میں جو بھی سوچیں ، جو بھی کہیں ، کوئی فرق نہیں پڑتا ، بلکہ اپنی پوزیشن صاف کرنے اور معاملے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے – اللہ کے رسول ﷺ نے محسوس کیا کہ راستے سے گزرنے والوں کے دل میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہ پتہ نہیں ، کون عورت ہے؟ چنانچہ آپ نے فوراً وضاحت کردی کہ یہ میری بیوی ہے –
البتہ ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے – وہ یہ کہ خود کو صرف وضاحت کرنے تک محدود رکھنا چاہیے ، اس سے آگے بڑھ کر شبہات کا اظہار کرنے یا اندیشوں میں مبتلا ہونے والوں کو بُرا بھلا نہیں کرنا چاہیے – مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے – اسی دوران میں ایک شخص نے اٹھ کر کہا : ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے جب تک آپ یہ وضاحت نہ کردیں کہ مال غنیمت میں ہر ایک کے حصے میں جتنا کپڑا آیا تھا آپ نے اس سے زیادہ کیوں لے لیا؟ اور اس سے اپنا جُبّہ بنوالیا ؟ حضرت عمر نے اس شخص کو بُرا بھلا نہیں کہا کہ تم میری ایمان داری پر شک و شبہہ کیوں ظاہر کرتے ہو؟ بلکہ اپنے بیٹے عبد اللہ کو اشارہ کیا ، جنھوں نے کھڑے ہوکر یہ وضاحت کردی کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا ابّا جان کو دے دیا تھا –