اللہ تعالی اپنے ہر بندہ کو اس کے افکار و خیالات، تمنائوں و خواہشات اور کاوشوں و محنت کے مطابق بہرور فرماتا ہے۔حصول نعمت کردگار کے اعتبار سے انسان کی تین قسمیں ہیں ایک وہ ہے جو اپنی کوتاہ نظری کے سبب موہوم مفاخر پر فخر مباہات کرتے ہوئے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ابدی اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں اور اخروی زندگی سے بے خبر ایسے لوگوں کو مادی مافع کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا چونکہ ان کے تمام افکار و خیالات کا محور صرف اور صرف دنیوی خوشحالی ہوتی ہے اسی لیے وہ دنیوی مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل کرنے کی مسلسل کوشش و سعی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مقامات مقدسہ میں مذہبی عبادات و رسومات بھی وہ خالق کو راضی کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیاوی اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے انجام دیتے ہیں۔
قرآن مجید کے مطابق ایسے لوگوں کو دنیاوی نعائم سے لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا لیکن آخرت کی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ دوسری قسم وہ ہے جو بظاہر دنیا میں نعائم سے محروم نظر آتے ہیں جو درحقیقت ان کے ابتلاء و آزمائش یا رب کے محبوب ہونے کی علامت ہوتی ہے چونکہ یہ لوگ زیب و زینت کی حامل ناپائیدار مادی زندگی کو معنوی تکامل و ارتقا کا سبب سمجھتے ہیں مقصود نہیں۔ اسی لیے یہ مبارک ہستیاں اپنی زندگی کی تمام توانائیاں اور کد و کاوش دنیوی زینتوں ، رنگینیوں اور چمک دمک کے لیے وقف نہیں کرتے چونکہ وہ دنیا کو آزمائش کا گھر اور آخرت کی کھیتی تصور کرتے ہیں ۔ایسے خوش نصیبوں کے لیے آخرت میں بے انتہاء اجر و ثواب اور نا ختم ہونے والا اجر و ثواب ہوگا۔تیسری قسم وہ ہے جو نہ صرف مادی ہیں اور نہ تارک دنیا۔ یہ قسم یاد الٰہی میں شوق و شغف اور سوز و گداز کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ گزارنے والی اور آخرت کے شیدائیوں اور فدائیوں کی ہے جو دنیا و آخرت میں وہم و گمان سے بالاتر ایسی مادی و معنوی نعمتوں کے طلبگار ہوتے ہیں جو رب کی خوشنودی اور رضامندی کا باعث بنیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالی ان کے اعمال صالحہ اور استدعا کی وجہ سے دنیا و آخرت میں اپنی نعمتوں کا بہت بڑا حصہ عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہے اور نیک اعمال آخرت کی کھیتی ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے کبھی بعض لوگوں کو یہ دونوں چیزیں عطا فرمادیتا ہے انہی عظیم الشان شخصیات میں ایک نام ذہانت و فطانت، دیانت و امانت کی حامل شخصیت حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا ہے جنہیں اللہ تعالی نے دینی و دنیوی نعائم سے وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔
نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں دامن اسلام سے وابستہ ہوکر سب سے پہلے علی الاعلان اسلام کا اظہار کرکے اسلام کو عزت و قوت عطا فرمانے والے، رمز شناس مصطفیؐ، صاحب الہام، امت مسلمہ کے محدث (جس کی زبان سے ملائکہ بات کریں)، عدل و انصاف کے پیکر ، بے شمار شہروں اور ممالک بشمول ایران، عراق، مصر، شام کے فاتح، عبقری شخصیت امیر المومنین خلیفہ دوم ابو الحفص حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی حیات طیبہ دینی اور دنیوی بھلائیوں کا ایک حسین امتزاج ہے جو آج کے مسلمانوں کے لیے اِکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیت و خلوص، زہد و تقوی، عبادت و ریاضت ، استقامت و انابت کے ساتھ مختلف اہل اعلم اور مورخین کی تصانیف سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عدل و انصاف پر مبنی حکومت کا انتظام وانصرام کرنا ، عمال حکومت کی سخت نگرانی کرنا، رعایا کے حقوق کی پاسداری کرنا، آپ کی پاکیزہ زندگی کے ایسے عظیم الشان کارنامے اور قوت ایمانی کے ایسے روشن چراغ ہیں جس کی مثال تاریخ انسانی میں بڑی مشکل سے ملتی ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح تھی۔ ان کی ہجرت نصرتِ الٰہی تھی اور ان کی خلافت رحمت خداوندی تھی۔اگر کسی معاملہ میں لوگوں کی رائے ایک اور حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی رائے مختلف ہوتی تو اللہ جل شانہ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی رائے اور مشورہ کے مطابق وحی نازل فرماتا۔ قرآن مجید میں تقریباً 21 مقامات ایسے ہیں جہاں رب کائنات نے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی باتوں سے موافقت فرمائی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں حضرت عمرؓ کی رائیں موجود ہیں۔ قرآن مجید نے شیطان کو مسلمانوں کا خبیث ترین، انتہائی خطرناک اور کھلا دشمن قرار دیا ہے جو مسلمانوں کو شریعت مصطفویؐ کی پیروی کرنے ، آخرت پر ایمان لانے سے روکتاہے، برائی و بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور ان کے اند رفساد پیدا کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کا شمار دوزخیوں میں سے ہوجائے۔اب ذرا حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی ایمانی قوت و حرارت، شان و عظمت ملاحظہ فرمائیے کہ فرمان رسالت مآبؐ ہے کہ بے شک شیطان عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔
آپؐ کو یہ مقام و مرتبہ دین اسلام پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باعث ملا ہے چنانچہ رسول مکرمؐ کا ارشاد عالیشان ہے کہ میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں۔ افسوس صد افسوس آج ہم فاروق اعظمؓ کے فضائل وکمالات بیان کرتے ہیں، آپ کی ذات پر فخر و ناز کرتے ہیں اس کے باوجود ہم اور مسلم معاشرہ شیطانی اعمال یعنی شراب نوشی، جو اخوری، عاملوں کی پیروی وغیرہ جیسے غلیظ اور ناپاک چیزوں اور ایسی قبیح حرکات میں غرق نظر آتا ہے جسے کوئی بھی سلیم الفطرت انسان پسند نہیں کرتا ۔ان مضر ترین خرابیوں اور نقصانات سے بچنے کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ سیرت فاروقیؓ کا اعتراف صرف زبانی نہ کریں بلکہ اس کو عملی طور پر اپنانے کی ہر لمحہ کوشش و سعی کریں۔ حقیقی کمال و خوبی یہ نہیں کہ انسان ذاتی طور پر ترقی کے منازل طے کرے بلکہ اصل شرف و فضیلت یہ ہے کہ انسان اپنے اہل و عیال اور پوری انسانیت کے لیے مادی و معنوی طور پر فائدہ بخش بھی ثابت ہو۔قتیل تیغ ابروئے مصطفیؐ یعنی حضرت عمر فاروقؓ کی ذات گرامی بے شمار معنوی فضائل و کمالات کے علاوہ مادی کارناموں کی حامل ہے جن کے مادی و روحانی فیضان سے دنیا تا صبح قیامت مستفید و مستفیض ہوتی رہے گی۔
حضرت خزیمہ بن ثابتؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جب کسی شخص کا بحیثیت والی تقرر فرماتے تو اس سے چند شرائط کی تکمیل کا عہد لیتے (i) ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، (ii) اعلیٰ درجہ کا کھانا نہیں کھائے گا، (iii)باریک کپڑا نہیں پہنے گا اور (iv) حاجت والوں کے لیے اپنے دروازہ بند نہیں کرے گا۔ جو والی یا حاکم ان شرائط کی پابندی نہیں کرتا آپؐ اس کے ساتھ سختی سے پیش آتے ۔ آپؓ کو معلووم ہوا کہ عیاض بن غنم ریشم کا کپڑا پہنتے ہیں اور دربان رکھتے ہیں تو آپؓ نے انہیں بکریوں کا ریوڑ دیکر فرمایا جائو بکریاں چرائو تم انسانوں پر حکومت کرنے کے قابل نہیںہو ۔ یہی وجہ ہے کہ پوری مملکت اسلامیہ کے تمام حکام اور گورنر آپؓ کی ہیبت و جلال اور رعب و دبدبہ سے کانپتے تھے۔آپؓ تمام حکام و عمال کو سیاسی و انتظامی ذمہ داریاں تفویض کرنے سے پہلے ان کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل فرماتے ۔
عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کے اثاثوں کی فہرست جب فاروق اعظمؓ کے ملاحظہ میں آئی تو آپؓ نے ان اثاثوں کو دوحصوں میں تقسیم فرمایا اور ایک حصہ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کے لیے چھوڑ دیا اور ایک حصہ بیت المال میں جمع کردیا۔ گفتار و کردار کے حقیقی غازی جن کے نام سے ایران و فارس کے حکمرانو ںپر لرزہ طاری ہوجاتا تھا یعنی حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں مذکورہ بالا اصولوں پر سختی سے عمل پیرائی نے مسلمانوں کی تقدیر بدل کے رکھ دی تھی۔ آپؓ سیاسی و انتطامی امور کو موثر بنانے کے لیے ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم فرمایا، بیت المال قائم فرمایا، محکمہ پولیس قائم فرمایا، صیغۂ تعلیم، مذہبی، عدالت اور فوج قائم فرمایا ، قاضی مقرر کیے، اسلامی تقویم کا اجرا فرمایا ، نہریں کھدوائی، مرد شماری کروائی ، رعایا و بازار کی خبر گیری فرمایا کرتے اور مسائل کی تحقیق کے لیے علمی مذاکرے کا انعقاد عمل میں لاتے ایسے عظیم الشان خدمات انجام دینے کے باوجود سادگی و عاجزی کا یہ عالم تھا کہ لباس میں پیوند لگے ہوئے ہوتے، فرش خاک پر آرام فرمایا کرتے، چشم و خدم کے نام سے بالکلیہ ناآشنا تھے۔
اگر آج کے مسلم سیاست داں امیر و مامور دونوں کو شرعی حدود و قیود میں رکھنے والے حضرت فاروق اعظمؓ کے انجام دیے گیے ان روشن خدمات کو پیش نظر رکھیں تو خدمت خلق کی ذمہ داری آسانی سے نبھاسکیں گے، کسی کو سیاسی قوت و اقتدار کا غلط استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا، رشوت و اقربا پروری کا چلن ختم ہوجائے گا، نظام معیشت مستحکم ہوگی، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، کوئی مظلوم ظلم کا شکار نہیں ہوگا اور عمال اور عوام الناس میں بہتر رشتے قائم ہوں گے جو غیر مسلموں کے لیے ایک نظیر بن سکتی ہے اس طرح ہم اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔