مختصر سوانح حیات حضرت میر شجاع الدینؒ
اسلامی مضامین

مختصر سوانح حیات حضرت میر شجاع الدینؒ

عہد حاضر میں بزرگان دین کے مشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری زندگیوں میں یاد الٰہی اور عشق نبوی کے ولولے ٹھاٹیں مارنے لگیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الا ان اولیاءاللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون: اولیاءاللہ ، اللہ کے دوست اور مقربین الٰہی ہوتے ہیں جن کی زندگیوں کا ہر لمحہ امر ربی کے تحت ہے وہ صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا جن کا مقصدِ حیات ہے جن کی صحبتوں میں انسان سلوک کی منزلیں طے کرتا ہے۔قلب کی پاکیزگی نفس کا تزکیہ اور روح کا تجلیہ ان سے نسبت کے ذریعہ ممکن ہے۔

بزرگان دین اور صوفیائے کرام نبوت کے بعد بندگان خدا کی رہنمائی تربیت اور اصلاح کیلئے منجانب اللہ معمور کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اسکے دوستوں سے لو لگائی جائے کہ اُن کا فیضان قیامت تک جاری رہے۔ اولیاءاللہ نے شرک، بدعت اور ہر طرح کی گمراہی سے لوگوں کو بچایا۔

عابد و معبود کے رشتے کومستحکم اور لوگوں کی روحانی بیماریوں کو دور کیا اور انکے دینی و دنیاوی درجات کو اپنی دعاو¿ں اور اپنے تصرف سے بلند کیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت و صحبت میں جمائے رکھو جو صبح و شام یاد الٰہی میں ہوتے ہیں اور اس شخص کی اطاعت نہ کرو جسکے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے۔

عہد حاضر میں بزرگان دین کے مشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری زندگیوں میں یاد الٰہی اور عشق نبوی کے ولولے ٹھاٹیں مارنے لگیں۔

سر زمین حیدرآباد پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم رہی اوراولیاءاللہ کے فیضان سے بے شمار لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا بزرگان دین کی دعاو¿ں سے انمیں دنیاوی اور سماوی آفات سے نجات ملی ۔

ان ہی مقدس اور عظیم اولیاءاللہ میں قطب الہند غوث دکن حضرت حافظ سید میر شجاع الدین قادری ؒ قدس سرہ العزیز بھی شامل ہیں آپ ولی کامل قطب وقت اور صوفی باصفا ہونے کے ساتھ ساتھ علوم ظاہری میں بھی بے مثال اور باکمال تھے۔

مفسرقرآن، محدث، ماہر فقہ، مصلح، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے آپ کی خدمات بے مثال ہے ‘ اور آپ کے فیوض نے فکر و نظر کو روشنی اور بصیرت سے مالامال کیا۔ آپ پیر روشن ضمیر تھے آپ کی فیض صحبت سے بے شمار لوگوں نے روحانی سکون حاصل کیا اور محبت الٰہی سے سرشار ہوئے۔

  • آپ کا نام ونسب:
    آپ کا اسم گرامی میر شجاع الدین حسین تخلض فقیر فرمایا کرتے تھے۔ آپکا سلسلہ نسب ۸۲واسطوں سے امیر المو¿منےن حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ سے ملتا ہے۔ آپکی ولادت ۱۹۱۱ ھ مےں برہان پور، مدھیاپردیش مےں ہوئی۔

آپ کے والدین واجداد:آپ کے والد بزرگوار علےہ الرحمہ کا اسم گرامی حضرت سید کرےم اللہ تھا، آپ نہایت متقی اور پرہےز گار تھے۔ ناصر جنگ بہادر (میرفرخندہ علی خان ناصر الدولہ نظام الملک آصفجاہ رابع) نے آپ کو خطاب خانی وبہادر سے مخاطب کیا اور قطب الہندؒ کے دادا کا اسم مبارک میر محمد دائم علیہ الرحمہ تھا۔ زبردست عالم اور صاحب کمال بزرگ تھے۔ مرزا بے دل علےہ الرحمہ سے شرف تلمز رکھتے تھے۔ نواب آصف جاہ بہادر حضرت سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ اور حضرت کے فضائل وکمالات کی وجہ سے برہان پور کی قضا¿ت آپ کی ذمہ داری میں رکھ دی تھی۔

آپ کے نانا کا اسم مبارک حضرت خواجہ صدیق عرف غلام محی الدین علےہ الرحمہ تھا۔ جامعہ مسجد برہان پور کی تولیت حضرت ہی کے تحت تھی۔ عبادت گذار اور نہایت پرہیز گار بزرگانِ برہان پور مےں آپکا شمار ہوتا تھا۔ آپکی اکلوتی صاحبزادی حضرت عارفہ بیگم صاحبہ حضرت قطب الہند کی والدہ ماجدہ تھیں۔

  • آپ کی تعلیم وتربیت:
    حضرت قطب الہند کی ابتدائی تعلیم وتربیت آپ کے نانا حضرت خواجہ صدیق عرف غلام محی الدین ؒ نے فرمائی۔ آپ نے کم سنی میں قرآن مجید حفظ فرمایا۔ صرف ونحو وغیرہ بھی آپ نے اپنے نانا بزرگوار سے پڑھی اور اےک روایت کے مطابق حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی صحبت سے بھی استفادہ کیا۔ 17سال کی عمر مےں حجِ بیت اللہ وزیارت ِ روضہ رسول اکرم ﷺسے سرفراز ہوئے۔
  • بیعت وخلافت:
    حضرت قطب الہند کو بیعت وخلافت 4 سلسلوں میں یعنی (قادری،چشتی، نقشبندی،رفاعی) حضرت تاج الفقراء تاج العلماء مولانا شاہ محمد رفیع الدین صاحب قبلہ قندہاری علیہ الرحمة والرضوان سے حاصل ہے جو حضرت خواجہ رحمت اللہ نائب رسول علیہ الرحمة والرضوان رحمت آباد شریف کے خلیفہ ہیں۔

حضرت قطب الہند نے ۶ مہینے تک پیر ومرشد کی خدمت میں رہ کر اکتساب سلوک وریاضت وغیرہ کی۔ اور بعد وصول اجازت وخلافت حیدرآباد دکن کو تشریف فرما ہوئے ۔ حیدرآباد دکن میں حضرت قطب الہند نے نواب عزت یار خان ؒصدر الصدور سے صحاح ستہ میں سندِ حدیث حاصل فرمائی۔

آپ کا دکن میں قیام:۔
حیدرآباد دکن کی جامع مسجد جو چار مینار کے دامن میں واقع ہے۔ اورجو چارمینار سے قبل کی تعمیر کردہ ہے وہ اس وقت غیر آباد ہوچکی تھی۔ اور فیل خانہ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ حضرت قطب الہندؒ نے اس کو آباد فرمایا۔ اور دکن میں پہلے مدرسہ حفظ قرآن کی بنیاد ڈالی۔
اور مسجد کے مشرقی حصہ میں اپنی خانقاہ قائم فرمائی۔ جہاں مریدین ومعتقدین کے قیام وطعام وتربیت کا انتظام رکھا گیاتھا۔ وہ خانقاہ آج بھی موجود ہے حضرت قطب الہند کی تعلیمات سے متاثر ہو کر نواب ناصر الدولہ بہادر(میر فرخندہ علی خان ناصر الدولہ نظام الملک آصفجاہ رابع) نے اپنے فرمان کے ذریعہ جامع مسجد کا نام بدل کر جامع مسجد شجاعیہ کردیا اور اس مسجد کی تولیت حضرت قطب الہند کے خاندان کے تحت کردی۔

آپ کے تصانیف:۔
حضرت نے مختلف زبانوں اور عنوانات کے تحت کثیر تصانیف تحریر فرمائی ہے۔جن میں مشہور یہ ہیں۔
(۱) جوہر النظام: عربی فقہ میں رسالہ کشف الخلاصہ اردو زبان میں جس طرح کے مفید ومقبول ہوا۔ ویسا ہی یہ رسالہ عربی میں بلیغ ہے۔
(۲) کشف الخلاصہ:(اردو) یہ رسالہ فقہ میں سہل اور مقبول ہے جس میں( ۳۸۳)اشعار ہیں۔
(۳)رسالہ علم القرات: (اردو) حضرت قطب الہند کو تجوید میں بھی نہایت عبور حاصل تھا۔ قواعد تجوید میں یہ رسالہ تحریر فرمایا ۔
(۴) رسالہ رؤیت:(فارسی) اس رسالہ میں آیات واحادیث سے رؤیت باری تعالی جو بروز محشر ہوگی مدلل طور پر ثابت فرمایا۔
(۵) رسالہ فوائد جماعت: (فارسی) یہ رسالہ جماعت کے فضائل میں مختصر ومفید ہے۔
(۶) رسالہ جبر وقدر :(فارسی )مسئلہ جبر وقدر جبکہ یہ ایک نازک مسئلہ ہے حضرت قطب الہند نے اس مسئلہ کو کمال عمدگی سے لکھا ہے ہر شخص کو تشفی ہوجاتی ہے۔
(۷) رسالہ سماع:(فارسی) اس رسالہ میں نادر روایتیں تفہیم ِسماع کے متعلق تحریر فرمائی ہے۔
(۸) رسالہ احتلام : (فارسی) اس رسالہ میں ایک شخص کے احتلام کے متعلق پوچھے ہوئے سوال کا جواب تحریر فرمایا۔
(۹) رسالہ سلوک قادریہ ونقشبندیہ :ان رسالوں میں سلوک قادریہ ونقشبندیہ ذکر واشغال کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
(10)مناجات ختم قرآن: (منظوم) ان مناجات میں عربی کے اشعارمیں قرآن مجید کے ہر ہر سورہ کو دعا کے لئے لایا گیا ہے۔ اور قبولیت دعا میں نہایت پر اثر ہے (طبع ہوچکا ہے) ۔
(۱۱) خطبات عربی: (منظوم وغیر منظوم) آپ کے تصانیف خطبوں کی ایک مستقل کتاب ہے جس میں کئی خطبے عبارات مضامینِ بلیغہ فصیحہ (زیر طبع) اس کے علاوہ غزلیات فارسی میں بھی آپ کا دیوان موجود ہے۔

قطب الہندؒ کی اولاد:
حضرت قطب الہند کو صرف ایک صاحبزادہ اور ایک صاحبزادی ہے۔
(۱) صاحبزادہ حضرت حافظ حاجی عبد اللہ شاہ شہیدؒ تھے جوحضرت قطب الہند کی حینِ حیات میں شہادت پائی۔
(۲) صاحبزادی جو حضرت عبدالکریمؒ بدخشانی سے منسوب ہے ۔

آپ کے سجادگان:۔
حضرت قطب الہندؒ کے وصال کے بعد(۱) آپ کے نبیرہ حضرت سید دائمؒ آپ کی بارگاہ کے سجادہ نشین اول ہوئے اور آپ کے وصال کے بعدآپ کے صاحبزادے (۲) حضرت سید عبد اللہ شاہ ثانیؒ اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے (۳)سید شاہ یٰسؒ اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے
(۴)حضرت سید شاہ غلام صمدانیؒ اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے
(۵)حضرت سید شاہ شجاع الدین ثانیؒ اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے (۶)حضرت سید شاہ عبید اللہ قادری المعروف آصف پاشاہ موجودہ جانشین ومتولی وذمہ دار تمام اُمور بارگاہ ومتعلقات متولی وجامع شجاعیہ چار مینار ہیں۔

حضرت قطب الہندؒ کے خلفاء:
(۱) حضرت حاجی حافظ سید عبد اللہ شاہ شہید فرزند قطب الہندؒ ۔
(۲) حضرت سید دائم ؒ نبیرہ قطب الہند۔
(۳) حضرت قائم ؒ نبیرہ قطب الہند۔
(۴)حضرت عبدالکریمؒ بدخشانی
(۵) حضرت سید پروریش حسینی المعروف بادشاہ حسینی ؒ ۔
(۶) حضرت خواجہ میاںؒ وغیرھم۔

آپ کا وصال وتدفین:۔
حضرت قطب الہند نے ۳/ محرم ۵۶۲۱ھ کو وصال فرمایا اور آپ کی تدفین آپ کے نبیرہ وجانشین حضرت سید دائمؒ کے باغ واقع عیدی بازار میں عمل میں آئی۔ اور آپ کی مزار اقدس پر حضرت سید دائمؒ نے عالیشان گنبد تعمیر فرمائی۔

حضرت کا عرس شریف ہر سال ۲ تا ۵ محرم الحرام زیر نگرانی حضرت سید شاہ عبید اللہ قادری آصف پاشاہ سجادہ نشین و متولی منایا جاتا ہے۔