مال و دولت اور جاہ و منصب فی ذاتہ بری نہیں بلکہ ان کا غلط استعمال دین اسلام میں مذموم ہے۔اگر مسلمان مرضیات الٰہی کے مطابق اور راہِ ہدایت و سعادت کے حصول کے لیے مال و دولت اور جاہ و منصب کا استعمال کرے گا تو یقیناً انسان کے حق میں یہ دولت و ثروت اور جاہ و عہدہ نہ صرف عطیاتِ خداوندی ثابت ہوں گے بلکہ موجب تقریب الٰہی، کامیابی و سعادت مندی ہے جس طرح خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنیؓ و دیگر سخاوت کرنے والوں کے حق میں ہوتا ہے۔ اگر مال و دولت اور جاہ و منصب کی وجہ سے انسان اپنے رب سے غافل ہوجائے اور عقبی کی زندگی کو فراموش کرکے دنیا پرستی کا شکار ہوجائے تو یہی مال و دولت اور جاہ و منصب اس کے حق میں نہ صرف بڑی آزمائش اور بلا شمار ہوں گے بلکہ وجہ ہلاکت و بدنصیبی ہے جس طرح نمرود، فرعون، قارون، ہامان ، شداد اور اس طرح کے لوگوں کے لیے تھی۔
اس حقیقت کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت جنہیں نیکی کے کاموں میں حریص ہونا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ مال و دولت اور جاہ و منصب کے حصول میں مصروف و منہمک نظر آتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے حلال و حرام کی تمیز کو مٹانے لگے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیامیں مسلمان ذلیل و رسوا ہورہا ہے۔ بالخصوص وطن عزیز ہندوستان میں لوگ دلت اور آدی واسی طبقات کے حقوق کے بارے میں کھل کو بات کررہے ہیں لیکن مسلمانوں کی تائید کرنے اور ان کے مسائل پر آواز اٹھانے میں ہر کوئی عار محسوس کررہا ہے۔
ان حالات کے لیے سب سے بڑے ذمہ دار خود مسلمان ہیں جو نہ صرف جانتے بلکہ مانتے بھی ہیں کہ قرآن مجید دستور حیات اس کی تعلیمات انسانیت نواز ہیں جس کی پیروی کرنے میں ہی دنیا و آخرت کی سرخروی مضمر ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی بہت کم تعداد ایسی ہے جو اس دعوی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر ہم دعوی کے مطابق دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اپنی نسلوں کو اسلامی منہج کے تحت تربیت دیتے تو مسلم معاشرے میں قتل و غارت گیری، چوری و ڈکیتی، شراب نوشی و جوا خوری، ظلم و زیادتی الغرض گمراہی و بے راہ روی ہر سو عام نہ ہوتی۔
اگر مسلمانوں کو حقیقتاًکردار کو سنوارنا ہے، تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے، معیشت کو مضبوط کرنا ہے ، سیاسی قوت کو بڑھانا ہے ،اسلامی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینا ہے اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنا ہے تو ان پر لازم ہے کہ عملی طور پر قرآن اور صاحب قرآنؐ سے اس قدر اٹوٹ وابستگی اختیار کریں کہ لوگ ہمارے نام کو نہیں بلکہ کردار کو دیکھ کرہی کہہ دیں کہ یقینا یہ شخص مسلمان ہوگا۔قرآن مجید نے صفات کی بنیاد بنی آدم کو مسلمان، مومن، متقی، یہودی، نصاری، کافر، گمراہ اور فاسق بتایا ہے۔
آج نیا کی دوسری بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے جن میں سے حقیقی مومن وہی ہے جو مومنانہ صفات سے متصف ہے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی دوسری بڑی آبادی میں مومنین کی تعداد بہت کم نظر آئے گی۔ اگر مسلمانوں میں مومنانہ کردار کے حامل افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تو امت مسلمہ پوری دنیا پر غالب ہوتی چونکہ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ مومنین ہی سرفراز کیے جائیں گے۔ جس قوم کو اللہ تعالی سرفراز کرے وہ ذلت و رسوائی کا شکار کیسے ہوسکتی ہے؟ پوری دنیا میں مسلمانوں کے جو ناگفتہ بہ حالات ہیں اس سے یہی بات ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مومنانہ کردار سے محروم ہوچکی ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان ہوکر رہ گیے ہیں ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جن میں مو منانہ صفات بدرجہ اتم موجود ہوں۔
مسلم معاشرے کے حالات تو اس قدر بدتر ہوگیے ہیں کہ تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور روح کی پاکیزگی کے مراکز یعنی خانقاہوں پر بھی صوفیانہ لباس پہنے ہوئے جعلی پیروں ، مجاوروںاور گورکنوں کا قبضہ ہوچکا ہے اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی پسماندگی کا شکار امت مسلمہ انہی خودساختہ جعلی پیروں کو نہ صرف پیرکامل تصور کرنے لگی ہے بلکہ بغیر کسی تامل کے شبیہ غوث اعظمؒ قرار دے رہی ہے جو درحقیقت حضرت پیران پیر حضور سیدنا شیح عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے اعلیٰ علمی و روحانی مقام و مرتبہ کی صریح توہین ہے۔ دنیا پرستی اور جاہ طلبی کی شدید خواہش کی وجہ سے مسلمانوں کے کردار میں وہ تمام مذمومہ صفات آگئی ہیں جس کو قرآن مجید نے نافرمانوں اور سرکشوں کی علامت بتایا ہے۔اس کے باوجود ہمیں یہ شکوہ ہے کہ ہم مسلمانوں پر ہی اتنے مصائب کیوں آرہے ہیں۔ ہم کو جان لینا چاہیے کہ بغیر چرواہے والے بکریوں کی ریوڑ کو درندہ بھیڑیا اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا دین کو مال پرستی اور جاہ طلبی سے نقصان ہوتا ہے۔
دین اسلام کا ہر حکم اعتدال پر مبنی ہے۔ جہاں قرآن مجید نے مال کو فتنہ قرار دیا ہے وہیں مال فضل کردگار بھی قرار دیا ہے یعنی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر انسان شریعت مطہرہ کے احکامات کے مطابق مال و دولت حاصل کرتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن یہی مال و دولت اگر نفسانی خواہشات کے مطابق لوگوں کو دھوکہ دے کر، امانت میں خیانت کر کے اور حرام ذرائع سے کمائی جائے تو اس سے انسان کی دنیا و آخرت دونوں تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان جاہ و منصب کا استعمال اپنے ذاتی اور ناجائز مفادات کے حصول کے لیے کرتا ہے تو یہ مذموم ہے چونکہ اس فعل شنیع سے انسان میں غرورو تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور مخلوق خدا اس کے ظلم و ستم اور جور و استبداد کا شکار ہوجاتی ہے اور اگر مسلمان اسی جاہ و منصب کا استعمال اخلاص نیت اور صدق دل کے ساتھ بندگان خدا کی تکالیف و مصائب کو دور کرنے، انہیں راحت پہنچانے، اسلام کی اشاعت و تبلیغ اور سربلندی کے لیے کرے گا تو اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور وہ آخرت میں اجر عظیم کا مستحق بنے گا۔
مسلمانوں کی اکثریت جاہ و منصب کا غلط استعمال کرتی ہے۔ اکثر لوگ اپنا دبدبہ دکھانے، اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے، مظلوم کو حق سے محروم کرنے اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ انہی اعمال قبیحہ کی شدید چاہت نے مسلمانوں کو جاہ و منصب حاصل کرنے میں نہ صرف رشوت دینے کی طرف آمادہ کردیا ہے بلکہ مسلمانوں کو مشرکانہ اعمال اور غیر شرعی امور انجام دینے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت سعادت مندی سے محروم ہے۔ مسلمانوں بالخصوص اعلی عہدوں پر فائزلو گوں کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت ٹہریں۔آج دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں چونکہ وہ ظالم ہے اور فلسطین کی حمایت کررہے ہیںچونکہ وہ مظلوم ہیں لیکن مسلمان خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیا لوگوں پر ظلم کرکے اسرائیلی کردار ادا نہیں کررہے ہیں؟
ایسے عالم میں اسرائیل کے خلاف ہماری دعائوںمیں تاثیر کیسے پیدا ہوگی۔دنیا بھر میں مسلمانوں پرہورہے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان پہلے اپنی غلط روش کو بدلیں ظالم کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں اگرچہ وہ امیر کیوں نہ ہو اور مظلوم کی حمایت کریں اگرچہ وہ غریب کیوں نہ ہو پھر رب کے حضور دست بدعا ہوں اسی وقت ہماری دعائوں میں اثر پیدا ہوگا۔ جو مسلمان کسی مصیبت زدہ اور پریشان حال انسان کی مصیبت کو دور کرتا ہے یا اس کو دور کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالی بروز قیامت اس کی پریشانی دور فرمادے گا جب کوئی دوسرا اس کی پریشانی کو دور کرنے والا نہیں ہوگا۔ کتنا عظیم الشان اجر و ثواب ہے انسان کی پریشانی کو دور کرنے کا! لیکن دنیا پرستی ،مال و دولت اور جاہ و منصب کی لالچ میں ہم اس قدر غرق ہوچکے ہیں کہ لوگوں کی مصیبت دور کرنا تو درکنار ہم لوگوں کی راہوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کو اپنی زندگی کا بہت بڑا کارنامہ اور کامیابی سمجھنے لگے ہیں جو اسلامی تعلیمات اور مومنانہ کردار کے بالکل مغائر ہے۔
حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رحمت عالمؐ نے فرمایا جو کوئی دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کردیں گے اور جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے اللہ تعالی اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائیں گے۔انسان کی مشاکل کو دور کرنے میں دو چیزیں بہت زیادہ ممد و معاون اور موثرثابت ہوتی ہیں ایک مال و دولت دوسرے جاہ و منصب ۔اگر ہم ان کا صحیح استعما ل کریں تو لوگوں کا بھی فائدہ ہوگا کہ انہیں تکالیف سے نجات مل جائے گی اور ہمارا بھی فائدہ ہوگا کہ ہم دنیا میں گمراہیوں اور گناہوں سے بچ جائیں گے اور آخرت میں اجر عظیم کے مستحق بنیں گے اس طرح ہم دنیا و آخرت میں سعادتمند لوگوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے ورنہ بدبختی سے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکے گی۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔