آب زمزم لے جانے پر مکمل پابندی نہیں
اسلامی مضامین

آب زمزم کرشمہ قدرت

متمدن انسانی تاریخ میں جو ہزاروں سال پر مشتمل ہے، انسان نے بے پناہ ترقی کی۔ پتھر کے دور سے جدید ٹکنالوجی تک پہنچا اور ترقی کی منازل طئے کرنے کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ انسان کی ہر میدان میں حیران کن ترقی کے باوجود قدرت کے کرشموں کے آگے انسان کا ذہن آج بھی محو حیرت رہتا ہے۔ انسانی عقل کو حیران کرنے والے اس زمین پر موجود اشیاء کا شمار بھی انسان کیلئے مشکل ہے۔
 آب زم زم بھی ایک کرشمہ قدرت ہے۔ یہ چشمہ صحرائے عرب میں ہزاروں سال سے جاری ہے۔ ہمارے مشاہدے میں جو کنویں رہے ہیں، ان میں زم زم کا کنواں بالکل مختلف ہے۔ اول تو اسے کسی انسانی ہاتھوں نے نہیں کھودا۔ یہ محض ایک کرشمہ قدرت ہے۔ عام طور سے انسانی ہاتھوں کھودے گئے کنویں میں زمین سے رسنے والے پانی کے قطروں سے کنویں میں پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے، جو ہمارے استعمال میں آتا ہے۔ عام طور سے ہمارے کھودے ہوئے کنویں ایک عرصہ بعد خشک بھی ہوجاتے ہیں لیکن زم زم کے کنویں کی دیواروں سے جو جھرنے پھوٹتے نظر آتے ہیں اور کنویں کی دیواروں سے فواروں کی شکل میں آنے والے پانی کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ جیسے کوئی پانی بجلی کی موٹر کے ذریعہ پھینک رہا ہے۔  بہرحال ہزاروں سال سے اس قدر تیزی سے پانی کا نکلنا اور اس قدر بڑی مقدار میں نکلنا یہ ایک زندہ کرشمہ قدرت ہے، جس کے آگے انسانی عقل دنگ ہے۔ بتایا گیا کہ زم زم کا کنواں 98 فٹ گہرا اور اس کا قطر 9 فٹ ہے۔ روئے زمین پر زم زم کے کنویں کی طرح کوئی اور مثال ہے نہ ترقی یافتہ سائنس ایسی کو ئی مثال پیش کرنے کا تصور کرسکتی ہے۔
مسلمانان عالم کے مرکز مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ سے 20 میٹر دور مشرق کی جانب کوئی چار ہزار سال قبل پھوٹا یہ چشمہ آج تک مسلسل جاری ہے اور ہزاروں، لاکھوں افراد کو سیراب کر رہا ہے۔ مہمانان رب العزت کی ضرورت پوری کرتا ہے اور مسجد نبوی شریف کے تمام زائرین بھی یہی پانی پیتے ہیں۔ زم زم کے کنویں سے عام دنوں میں ہر روز 100 مکعب میٹر پانی استعمال کیلئے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ جمعہ کے روز یہ مقدار دوگنی ہوجاتی ہے۔ حج سیزن اور ماہ رمضان میں یہ مقدار 1000 مکعب میٹر سے تجاوز کرجاتی ہے۔ زم زم کاپانی نہ صرف حجاج اور زائرین کے استعمال میں آتا ہے بلکہ مقامی افراد ہزاروں Cans پانی پینے کیلئے گھر لے جاتے ہیں جبکہ زائرین و حجاج بھی زم زم کے کین اپنے ساتھ اپنے اپنے ملک لے جاتے ہیں۔
 حرم مکی کے اندرونی حصوں 90 مقامات پرحجاج اور زائرین کیلئے زم زم پینے کے انتظام ہیں جبکہ سو سے زائد ٹونٹی یا نلکے بیرونی صحنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مہمان رب العزت کثیر مقدار میں زم زم پیتے ہیں کیونکہ احادیث شریف اور روایتوں میں اس کے بے شمار فوائد بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زم زم پینے والا کسی تکلیف یا بیماری سے شفا کی دعا کر کے زم زم پیئے گا تو اسے شفا حاصل ہوگی۔ ایک حدیث کے مطابق زم زم اس سرزمین کا بہترین پانی ہے۔ یہ نہ صرف پانی ہے بلکہ یہ غذائیت سے بھرپور پانی ہے۔
سنہ 1982 ء میں حکومت نے زم زم کے آسان حصول اور تقسیم کے لئے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا جو زم زم کے تقسیم کی نگرانی کرتا ہے۔ آب زم زم پر عربی، انگلش، فرنچ، اردو، ترکی اور کچھ دیگر زبانوں میں ایک ڈاکیومنٹری فلم تیار کی گئی ہے جس میں زم زم سے شفا اور اس کے فوائد تفصیلی طور پر دکھائے گئے ہیں۔ یہ فلم youtube پر دیکھی جاسکتی ہے۔ کنگ فیصل کے دور (1975) میں زم زم کے کنویں کو پاٹ کر زمین کے برابر کیا گیا تھا تاکہ مطاف کے رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ زم زم کے کنویں کو ایک تہہ خانہ کی شکل میں نیچے کیا گیا اور اس کے اطراف شیشے (glass) کا فریم لگایا گیا تھا جس میں سے زائرین کنواں دیکھ سکتے تھے۔ 1990 ء کی دہائی تک بھی لوگ سیڑھیوں کے ذریعہ نیچے جاکر کنواں دیکھ سکتے تھے۔
کہتے ہیں کسی زمانے میں حجاج اور زائرین زم زم کے کنویں میں سکے اور دیگر دھاتی اشیاء ڈالتے تھے۔ یہ چیزیں ایک مرتبہ کنویں کی صفائی کے دوران برآمد ہوئے۔ یہ صفائی کا کام 17 جمادی الاول 1399 ھ (1979) میں کی گئی تھی۔ اس کے بعد کنویں کو اس طرح محفوظ کردیا گیا کہ اس میں باہر سے کوئی چیز پھینکنے کا امکان نہیں رہا۔
بتایا گیا کہ ایک مصری محقق نے اپنی کتاب ”الرحلت الجازیہ“ میں لکھا کہ زم زم  میں سوڈیم، کیلشیم، پوٹاشیم اور کلورائیڈ نمک موجود ہے۔ اس کے علاوہ زم زم میں Sulphuric Acid اور Nitric Acic بھی موجود ہے۔ زم زم کا کنواں کبھی جراثیم کی وجہ سے آلودہ نہیں ہوا۔ نہ آج تک اس پانی کے استعمال سے کسی کو کوئی تکلیف اس کے استعمال کرنے والے کی صحت پر کوئی معمولی سا خراب اثر بھی ریکارڈ کیا گیا۔ زم زم میں موجود کیمیائی عناصر سے یہ پانی خصوصی آلات کے ذریعہ جراثیم سے پاک کئے ہوئے منرل واٹر سے بھی زیادہ بہتر، صاف شفاف ہے اور زم زم میں غذائیت بھی ہے۔ زم زم کا کوئی الگ رنگ ہے، نہ اس میں کسی قسم کی بو یا مہک پائی جاتی ہے  لیکن اس کا مزہ عام پانی سے کسی قدر مختلف ہوتا ہے۔
زم زم سینکڑوں برس سے حجاج و زائرین اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وطن میں اپنے عزیز و اقارب کو چھوٹی بوتلوں میں ڈال کر بطور متبرک تحفہ دیتے ہیں۔ آج بھی ہر حاجی اپنے ساتھ مکہ مکرمہ سے زم زم کا ایک Can ضرور لے جاتے ہیں۔ چند برس قبل انڈین قونصلیٹ جدہ نے ہندوستانی حجاج کو اپنے ساتھ یہ وزنی زم زم Can اٹھاکر لے جانے کی زحمت سے بچانے کیلئے یہ انتظام کیا تھا کہ ہندوستان کے جن جن  شہروں سے حجاج کی راست فلائٹس جدہ آتی ہیں، اس شہر کو اتنی تعداد میں زم زم کے Cans قبل از وقت واپسی کی فلائیٹ کے ذریعہ روانہ کردیتی تھی۔ حجاج واپسی پر ایرپورٹ سے اپنا Can حاصل کر کے گھر لے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی سہولت قونصل جنرل جدہ نے ہندوستانی حجاج کیلئے مہیا کرائی تھی۔
 رمضان اورحج سیزن کے علاوہ عام دنوں میں بھی لوگ مختلف ایرپورٹس سے زم زم کے  Cans اپنے ساتھ وطن لے جاتے ہیں، یہ تو سب ہی جانتے کہ ہوائی سفر میں ہینڈ بیگ (Hand Bag) میں کسی قسم کا سیال مادہ (Liquid) رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہر ایرپورٹ پر مسافرین کیلئے ایک خصوصی پلاسٹک کی تھیلی دستیاب رہتی ہے جس میں مسافر اپنا زم زم Can محفوظ (Pack) کرواکر بطور Hand Carry لے جاسکتا ہے۔ ہزاروں برس میں زم زم کو مختلف ناموں سے جانا گیا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق زم زم کو 54 نام دیئے گئے ہیں مگر اس کا سب سے معروف اور زبان زد عام نام زم زم ہی ہے۔
آخر میں حجاج و زائرین سے ایک گزارش پر اپنی بات ختم کرنا چاہیں گے کہ زم زم ایک مقدس پانی ہے۔ ہم اپنے ملکوں میں جب چھوٹی مقدار میں اسے تحفتاً پاتے ہیں تواسے بڑی عقیدت و احترام سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ایک ایک قطرے کا احترام کرتے ہیں۔ شیشی یا بوتل میں بچی آخری بوند کو بھی ہتھیلی میں ڈال کر سر آنکھوں سے لگالیتے ہیں۔ یہ اس کا حق بھی ہے لیکن کعبتہ اللہ میں حجاج و زائرین جنہیں یہاں زم زم وافر مقدار میں حاصل رہتا ہے، وہ اس کو ضائع کرتے ہیں۔ فرش پر بے جھجک گراتے ہیں۔ زم زم ا یک مقدس پانی ہے۔ ہر حال میں ہر مقام پر۔ چاہے وہ کعبہ شریف کا احاطہ ہو یا اپنا وطن۔ ویسے بھی ہمارے لئے حکم تو یہ ہے کہ ہم دریا کے کنارے بیٹھ کر نہائیں یا وضو کریں ہم پانی کواحتیاط سے استعمال کریں۔ پھر زم زم تو ایک مقدس پانی ہے۔
نبی کریمﷺ نے 14 سو برس قبل ہمیں پانی محتاط طریقہ سے استعمال کرنے کی تلقین کی تھی۔ آج دنیا میں پانی کی قلت عام ہورہی ہے۔ ہر جگہ  پانی کے احتیاط سے استعمال کی تلقین کے بورڈز لگائے جارہے ہیں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں جنگیں زر، زمین یا اقتدار کو لیکر نہیں بلکہ پانی کی خاطر انسان آپس میں نبرد آزما رہیں گے اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں گے۔ جب عام پانی کو احتیاط سے خرچ کرنے کا حکم ہے تو پھر زم زم کے استعمال میں تو شدید احتیاط کی جانی چاہئے۔
یہ ایک مقدس پانی ہے اس لئے زم زم کو قبلہ رخ اور احتراماً کھڑے ہوکر پینے کا حکم ہے۔ جب جب ہماری حرم مکی میں حاضری ہوتی ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ زائرین زم زم پینے کیلئے لگائے گئے نل Taps سے پانی پیتے ہیں، اسے اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ زم زم کے احترام کا خیال نہیں رکھتے۔ زم زم کے بڑی مقدار میں سر پر سے ڈالنے میں کافی زم زم فرش پر گرجاتا ہے۔ اور فرش گیلا ہونے سے زائرین کے پھسل پڑنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔ یعنی زم زم ضائع ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔ زم زم سر پر سے ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر کم مقدار میں احتیاط کے ساتھ ڈالا جائے تو وہ نیچے نہیں گرتا اور زم زم ضائع ہونے سے بھی بچتا ہے۔ کسی بھی پانی کو ضائع کرنے سے ہمیں  منع کیا گیا ہے پھر یہ تو قابل احترام پانی زم زم ہے۔ حجاج اور زائرین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔