یہ کوئی سونے کا انڈا نہیں بلکہ مرغی کا ایک عام سا انڈا تھا جو بازار میں عموما 6 یا 7 روپے فروخت ہوتا ہے۔ لیکن مسجد کی تعمیر کے لیے جس جذبے کے ساتھ ایک غریب بیوہ نے اسے عطیہ کیا ہے اُس نے انڈے کی قیمت 2 لاکھ 26 ہزار روپے سے زائد تک پہنچا دیا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے اخلاص کے ساتھ رائی کے دانہ کے برابر صدقہ کا اجر وثواب احد کے پہاڑ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور کے ’مال ماپن پورہ‘ گاؤں میں ایک مسجد کئی ماہ سے زیرِ تعمیر ہے۔ گاؤں کے سابق سرپنچ طارق احمد نے کہا کہ صرف اڑھائی سو لوگوں پر مشتمل مال ماپن پورہ میں بڑی جامع مسجد نہیں تھی، اس لیے جامع مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، لیکن چھت تک پہنچ کر کام رُک گیا کیونکہ فنڈ نہیں تھے۔
عید کے موقع پر مسجد کمیٹی نے گھر گھر جاکر نقد و جنس عطیات جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگوں نے نقد رقم، برتن، مرغیاں، چاول وغیرہ عطیے میں دیے۔ مسجد کمیٹی کے ایک رکن نصیر احمد نے کہا کہ ’ہم عطیات جمع کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک چھوٹے سے گھر سے ایک خاتون سر جُھکائے چپکے سے میرے پاس آئی اور مجھے ایک انڈا پکڑا کر کہا کہ میری طرف سے یہ قبول کیجیے۔‘ نصیر نے کہا ہے کہ یہ خاتون نہایت غریب بیوہ ہے اور ایک چھوٹے سے خستہ مکان میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔
مسجد کمیٹی کی جانب سے عطیہ کردہ دوسری چیزیں تو بیچ دی گئیں لیکن نصیر احمد نے کہا کہ میں پریشان تھا کہ اس انڈے کا کیا کریں؟‘ نصیر احمد نے کہا کہ ’تھا تو وہ چھ روپے کا معمولی انڈا، لیکن اُس غریب خاتون نے جس اخلاص اور جذبے کے ساتھ اسے خدا کی راہ میں دیا، اُس نے اس کو بہت قیمتی بنا دیا تھا۔
نصیر نے کہا کہ لہذا میں نے کمیٹی کے دوسرے اراکین کو مشورہ دیا کہ انڈے کی بولی لگا دی جائے اور تین دن تک فروخت کے بعد انڈا واپس لیا جائے۔ نصیر نے مسجد میں خاتون کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اس انڈے کو نیلام کیا جار ہا ہے اور انھوں نے اپنی جیب سے اس کے لیے دس روپے کی بولی لگا دی۔
نصیر کے مطابق بولی کی پہلی آواز دس ہزارے روپے کی تھی اور اس طرح انڈے کی قیمت بڑھتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس چھ روپے کے انڈے سے دو لاکھ 26 ہزار سے زائد رقم حاصل ہوگئی۔
مسجد کی انتظامیہ نے طے کیا تھا انڈے کی بولی صرف تین دن تک ہو گی۔ نصیر احمد کا کہنا تھا کہ دو دن تک لوگ انڈے پر 10، 20، 30 اور 50 ہزار تک بولی لگا چکے تھے، اور ہر بار انڈا واپس کر دیا جاتا۔ پھر اعلان کیا گیا کہ آخری دن شام سات بجے بولی بند ہو جائے گی، اور آخری بولی لگانے والے کو انڈا دیا جائے گا۔
اس نیلامی میں سوپور کے نوجوان تاجر دانش حمید بھی موجود تھے۔ 54 ہزار کی بولی پر جب دو بار اعلان ہوا، تو پچھلی صف میں بیٹھے دانش نے بلند آواز میں کہا ’70 ہزار‘۔ اس طرح یہ انڈا مجموعی طور پر دو لاکھ، چھبیس ہزار، تین سو پچاس روپے کے نقد عطیات جمع کر پایا۔
دانش نے کہا کہ حالانکہ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ یہ انڈا کس کا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ کسی غریب بیوہ نے یہ انڈا دے کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور اُس بیوہ نے آسودہ لوگوں کو بڑھ چڑھ کر چندہ دینے پر آمادہ کیا۔ مسجد کمیٹی کے رکن نصیر احمد نے کہا کہ اب وہ انڈا معمولی نہیں رہا بلکہ وہ انڈا غیر معمولی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔
سوپور کے تاجر دانش حمید نے کہا کہ میں اس انڈے کو محفوظ کرنے کا انتظام کر رہا ہوں اور اس کے لیے ایک اچھا فریم بنوا رہا ہوں جس میں اسے محفوظ رکھوں گا۔ دانش حمید کی خواہش ہے کہ ’یہ انڈا ان کے، ان کے خاندان اور ہر دیکھنے والے کے لیے ایک یاد گار رہے کہ کس طرح ایک بیوہ نے خدا کی راہ میں اسے یہ سوچے بغیر دے دیا کہ اس کی قیمت کیا ہے۔ دانش حمید نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں، خالص اور نیک جذبات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اسی لیے یہ انڈا ہمیشہ ہمارے گھر میں محفوظ رہے گا۔