شب برأت
اسلامی مضامین

شب برأت کی فضیلت

ماہ شعبان کے وسط میں ایک رات ہے جسے شب برأت کہا جاتا ہے۔ برأت کے معنی چھٹکارے کے ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں: اس رات کوشب برأت اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دو قسم کی برأت ہوتی ہے۔ ایک برأت اللہ تعالی کی طرف سے بدبختوں کو ہوتی ہے اور دوسری برأت اللہ کے محبوب بندوں کو ذلت وخوادی سے ہوتی ہے۔ شیخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں اسی طرح آسمانوں پر فرشتوں کی بھی دو عیدیں ہیں۔ مسلمانوں کی دو عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں شب برأت اور شب قدر ہیں۔ چونکہ انسان سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن میں رکھی گئی ہیں اور فرشتے نہیں سوتے اس لئے ان کی عیدیں رات میں رکھی گئی ہیں۔

قرآن میں ا س رات کو ’مبارک رات‘کہا گیا ہے۔ اگرچہ کہ اس سلسلہ میں مفسرین کے نزدیک اختلاف ہے تاہم حضرت عکرمہؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد شب برأت ہے ۔ اس کے علاوہ احادیث میں بھی شب برأت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت آئی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے ایک دن رسول اللہ کو اپنے بستر پر نہ پایا، میںآپؐ کی تلاش میں گھر سے باہر نکلی میں نے دیکھا کہ آپؐ جنت البقیع میں موجود ہیں۔ آپؐ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا: کیا تم اس بات کا اندیشہ کرتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ میں نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے یہ خیال ہوا کہ آپؐ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں شب میں آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ رسول اللہ کا ارشاد بیان فرماتے ہیں: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو اس رات میں قیام کرو اور اس کے بعد آنے والے دن کا روزہ رکھو۔ اس لئے کہ اس رات اللہ سورج غرو ہونے سے طلوع فجر تک آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں، ہے کوئی بیمار اور مصیبت زدہ کہ میں اس کو عافیت دوں، اللہ تعالی برابر یہ آواز لگاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔

  • اس رات کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی؟

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی درمیانی رات جبرئیل میرے پاس تشریف لائے اور کہا: اے محمدؐ اپنا سرآسمان کی طرف اٹھایئے کیونکہ یہ برکت والی رات ہے میں نے پوچھا اس میں کیسی برکت ہے؟ جبرئیل نے فرمایا اس رات میں اللہ تعالی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور سوائے مشرک، ساحر، کاہن، شراب کا عادی، سودخور اور زانی کے علاوہ سب لوگوں کو معاف کردیتا ہے۔ان لوگوں کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک کہ وہ لوگ توبہ نہ کرلیں۔ بعض روایتوں میں رشتہ توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے پائجامہ لٹکانے والا، والدین کی نافرمانی کرنے والا، اور عراف یعنی طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے، یعنی اس رات ان کی بھی مغفرت نہیں ہوگی۔

  • شب برأت میں کیا ہوتا ہے؟

غنیۃ الطالبین میں اللہ تعالی کے اس قول ’’اس رات میں تمام مضبوط کام جدا کئے جاتے ہیں‘‘ کی تفسیر میںلکھاہے کہ اس رات میں اللہ تعالی سال بھر کے کاموں کی تدبیر کرتا ہے مرنے والے لوگ زندہ لوگوں سے الگ کردئے جاتے ہیںیہاں تک جو لوگ حج بیت اللہ کرنے والے ہوتے ہیں ان کے نام بھی الگ کردئے جاتے ہیں۔ عطار بن یسار سے روایت ہے کہ شعبان کی درمیانی رات میں لوگوں کے سال بھر کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور ایک شخص سفر کیلئے نکلتا ہے یا ایک شخص نکاح کرتا ہے حالانکہ ان کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا ہوتا ہے۔

  • اس رات میں کیا کرنا چاہئے؟

اگرچہ کہ شب برأت سے متعلق جتنی روایات آئی ہیں وہ سب ضعیف ہیں مگر چونکہ یہ حدیثیں مختلف صحابہ کرام سے اور متعدد سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں اس لئے یہ کم از کم حسن لغیرہ کے درجہ میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینی حلقوں اور مساجد میں اکثرو بیشتر اس رات کے اندر دعا و استغفار اورعبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دراصل شب بیداری کی راتوں میں جو عبادات کی جاتی ہیں وہ نفل ہوتی ہیں اور عند الحنفیہ نفل عبادات گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے ۔ اس رات اور اسی طرح کسی بھی طاق رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق نوافل، تلاوت اور صلاۃ التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک روزوں کی بات ہے تو ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھناچاہئے ، یہ نہ ہوسکے تو ایام بیض کے روزے رکھے جائیں یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم پندرھویں کا روزہ رکھ لیں انشاء اللہ موجب اجر و ثواب ہوگا۔ شب بیداری، عبادت اور روزوں کے علاوہ دیگر تمام اعمال مثلا چراغاں کرنا، میٹھا وغیرہ پکانا، گھروں کو رنگ و روغن کرنا، آتش بازی وغیرہ خلاف سنت اور بے اصل ہیںاسلام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔