نیا سال اور ہمارا طرز عمل
اسلامی مضامین حالات حاضرہ

نیا سال اور ہمارا طرز عمل

اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے، جس میں رواں دواں متحرک اور تغیر پذیر زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لئے بدرجہ اتم رہبری و رہنمائی موجود ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو کسی بے بنیاد مذہب اور گمراہ دین سے یا کسی باطل قدیم و جدید تہذیب و کلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔

لیکن افسوس صد افسوس آج امت کا ایک بڑا طبقہ غیروں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور ان کے دلوںمیں خوف و ہراس اور احساس کمتری کا تصور پنپ رہا ہے اور وہ کفار و مشرکین، یہود و نصاریٰ کے طور و طریق کا شوقین اور شیدائی بنا ہوا ہے۔ سالگرہ منانے کی بات ہو یا یوم عاشقی منانا یا پھر عیسوی سال کے آمد پر ’’نیا سال مبارک‘‘ کہنا اور اس کے پیغامات ترسیل کرنا یہ عمل اس کے لئے باعث فخر ہوگیا ہے۔

حالانکہ اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے نمونہ بنایا ہے اور کتاب و سنت ہی ہمارے لئے کافی و شافی ہیں اور اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی اور فوز و فلاح پوشیدہ ہے۔ کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کا راستہ اور ہمارا راستہ الگ الگ اور جدا جدا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جگہ ان کے طور و طریق اور ان کی مشابہت سے دور رہنے کی ہمیں تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن ابو داؤد ۴۰۳۳) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انہیں میں سے شمار ہوگا۔

ایک روایت میں ہے کہ لیس منا من تشبہ بغیر نا یعنی جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک طرف یہ شرعی ہدایات ہیں، جن میں غیروں کی مشابہت اور مماثلت پر سخت زجر و توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے امت کا ایک بڑا طبقہ نہایت بے باکی کے ساتھ عیسوی سال کی آمد پر ’’نیا سال مبارک‘‘ کہنے، بلکہ اسے شب عید کی طرح منانے کو باعث فخر تصور کر رہا ہے اور اپنے اس عمل پر نازاں بھی ہے۔ ’’کیسا نیا سال مبارک‘‘۔

ذراعقل و فہم کی کسوٹی پر پرکھ کر اس عمل کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیں تو فہم صحیح یہ کہتی ہے کہ عمر عزیز کے ایک سال کم ہونے پر خوشی کا اظہار چہ معنی دارد؟ نئے سال کی آمد پر دنیا کی عمر کا ایک سال کم ہوجاتا ہے اور دنیا قیامت کے اور قریب ہوجاتی ہے۔ نیا سال کیا؟ بلکہ سمجھا جائے تو ہر لمحہ نیا ہے،پھر سال نو منانے کا کیا مطلب؟ آج کل تو اس میں حد درجہ غلو کیا جارہا ہے، رات کے بارہ بجتے ہی رقص و شراب، ناچ و گانے اور آتش بازی شروع ہوجاتی ہے۔ اسلام نے غیروں کی مشابہت اور ان کے طور و طریق پر عمل کرنے کی سخت ممانعت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر ہر گز نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (سورۃ البقرۃ )

آج مسلمانوں کو سنہ ہجری کی دینی، ملی اور تاریخی حیثیت کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو غیروں کی اندھی تقلید چھوڑ کر خود اپنے دینی ورثے کی حفاظت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ آج مسلمان اور ان کے بچے کرکٹ کھلاڑیوں کے نام اور ان کے ذریعے مارے گئے چوکے چھکے، سنچری ، ہاف سنچری کی تفصیل اسی طرح فلم کے ایکٹر، ڈائریکٹر اور فلمی نغموں کے بارے میں معلومات برجستہ پیش کرتے ہیں لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، اسلامی تاریخ اور شعائر اسلام سے بے خبر رہتے ہیں۔

  • سنہ ہجری کی ابتداء

اسلامی تقویم اور اسلامی تاریخ کا آغاز ’’قباء‘‘ میں پہنچنے کے دن سے ہوتا ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کئی دیگر ممالک اسلامی سلطنت میں داخل ہوئے تو وہاں گورنروں کا تقرر ہوا اور ان کو دربار خلافت سے ہدایت نامے جاری ہونے لگے اور نامہ و پیام کا سلسلہ بڑھ گیا۔ اسی زمانے میں روم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک خط موصول ہوا جس پر عیسوی تاریخ اور سنہ درج تھا، اس کا جواب دیتے وقت انہیں تاریخ و سنہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ایک مرتبہ حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو تحریریں ملتی ہیں ان میں تاریخ و سنہ نہ ہونے کی بنا پر اکثر اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ کس وقت کی لکھی ہوئی ہیں اور اس لئے بعض اوقات ان پر عمل در آمد میں کافی دقت پیش آتی ہے، اسی عرصے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مقدمہ سے متعلق تحریر پہنچی جس میں صرف شعبان لکھا ہوا تھا کوئی سنہ تحریر نہ ہونے سے آپ کو یہ سمجھنے میں پریشانی ہوئی کہ یہ کس سال کے شعبان سے متعلق ہے۔ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی ایک واقعہ کو نقطہ آغاز قرار دے کر سرکاری طور پر سنہ کا درجہ دے دیا جائے یعنی وہاں سے باقاعدہ اسلامی تقویم (کیلینڈر) کا آغاز ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا جن کی مختلف آرا سامنے آئیں۔ ان میں یہ رائےبھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو اسلامی تقویم کاآغاز قرار دیا جائے، کچھ صاحبین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارک کے دن سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ لوگ اہل فارس کے کیلینڈر اور بعض نے رومیوں کے کیلینڈر اپنانے کی تجویز پیش کیں جسے آپ نے مسترد کر دیا، کافی غور و خوض اور بحث و مباحثہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق متفقہ طور پر اسلامی تاریخ کا سنہ ہجرت کے مہتم بالشان سال کو قرار دیا گیا۔

اس کی تائید سہل بن سعد سے مروی بخاری شریف کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے ماعدواً من مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا من وفاتہ ما عدواً الا مقدمۃ المدینۃ یعنی تاریخ کی ابتدا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت یا وفات سے نہ کرو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے کرو، جس میں انسانیت نے عقیدہ و ایمان، صبر و ثبات اور شجاعت و حوصلہ مندی کا ایک قیمتی خزانہ دریافت کیا تھا اور اسی مجلس میں عرب میں رائج مہینوں کے ناموں کو علی حالہ باقی رکھتے ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے پر مہر ثبت کرتے ہوئے اسلامی تاریخ کے سنہ کا پہلا مہینہ محرم الحرام کو متعین کیا گیا۔

حالانکہ قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ سنہ ہجری کی ابتدا ربیع الاول سے ہوتی، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی ماہ مبارک کو مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے۔ چنانچہ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح ترین قول یہی ہے لیکن بجائے ربیع الاول کے محرم الحرام سے اس لئے ابتدا کی گئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کا ارادہ محرم ہی سے فرما چکے تھے۔ اس کے علاوہ یہ مہینہ ہمیشہ عربوں اور مسلمانوں میں معظم و محترم رہا جس کی وجہ سے یہ حضرات اپنے کسی مہتم بالشان کام کا آغاز اسی ماہ سے کیا کرتے تھے بلکہ اہل عرب مہینوں میں سے پہلا مہینہ بھی محرم کو شمار کرتے تھے۔

ایسے شمسی اور قمری دونوں کے ذریعہ تاریخ، مہینہ اور سال کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن قمر کے ذریعہ مہینہ اور تاریخ کا حساب مشاہدہ اور تجربہ سے معلوم ہے، بخرخلاف شمس کے کہ اس کے حسابات سوائے ریاضی دانوں کے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ قمری ماہ کے ذریعہ حساب رکھنا ہر شخص کے لئے آسان ہے، خواہ انسان پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، شہری ہو یا دیہاتی۔ اس لئے عموماً احکام اسلامیہ میں قمری سن، مہینہ اور قمری تاریخوں کا اعتبار کیا گیا ہے۔

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور عدت وغیرہ اسلامی فرائض و احکام میں چاند کا حساب ہی رکھا گیا ہے اور اس وقت سے جب کہ ۲۰ جمادی الثانی ۱۳ ؁ھ مطابق ۹ جولائی ۶۳۸ ؁ء کو سنہ ہجری کی ابتدا کا فیصلہ کیا گیا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین اور علمائے کرام سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔

اس لئے مسلمانوں کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اتباع سنت اور اسلامی تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ملی انفرادیت برقرار رکھنا چاہئے۔ اپنے حساب و کتاب کے معاملات، خط و کتابت میں اور روز مرہ کی ضروریات میں جہاں ماہ اور سنہ لکھنا ضروری ہو، قمری ماہ اور سنہ ہجری میں لکھنا چاہئے کیوں کہ یہ شعائر اسلام میں سے ہے اور فقہاء رحمہم اللہ نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ آج مسلمان اپنے اس مذہبی شعار سے بالکل بے خبر ہیں، اپنے معاملات میں اسلامی تاریخ لکھنا تو در کنار اسلامی مہینوں کے ناموں سے بھی غافل ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے بلکہ اپنے کارو بار، دفتری معاملات جن کا تعلق غیر مسلموں سے ہے اور تجارت وغیرہ سے ہے۔ ان میں شمسی حساب استعمال کیا جائے، باقی نجی خط و کتابت اور روز مرہ کی ضروریات میں قمری اور اسلامی تاریخوں کا استعمال کیا جائے۔

لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ غیروں کے طور و طریق کو فخریہ اپنا رہا ہے، انہیں اپنے قومی اور مذہبی شعار کا ذرا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے حالانکہ اگر کوئی مؤمن و مسلمان کفار یا یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرے گا، عبادات میں ہو یا معاشرت میں، عادات و اطوار میں ہو یا ظاہری ہیئت میں و یا اس کے رسوم و رواج میں تو اس کا شمار انہیں میں ہوگا۔

ہمیں اس نے کامل دین و شریعت سے نوازا ہے اور ہمیں ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بطور نمونہ و اسوہ دی گئی ہے اور ہمیں سنتوں کے خزانے دئے ہیں۔ اب ہمیں کسی اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی ہمیشہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم فرماتے تھے، یہود و نصاریٰ بالوں میں خضاب نہیں لگاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت میں خضاب کا حکم دیا، فرمایا: ان الیہود والنصاریٰ لا یصبغون فخالفوہم (بخاری: ۵۵۵۹) یہود انگلیوں کے اشارے سے، نصاریٰ ہتھیلیوں کے اشارہ سے سلام کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کاحکم دیا، فرمایا: یہود کی مشابہت نہ کرو اور نہ نصاریٰ کی مشابہت کرو، یہود کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلی کا اشارہ ہے۔ (ترمذی : ۲۶۹۵)

ہمارا یہ حال ہے کہ آج ہمارے گھرانوں میں غیروں کے اطوار کا بول بالا ہے اور فرزندان اسلام یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین کے رنگ ڈھنگ میں رنگنے اور ان کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ الامان و الحفیظ۔نبی کریم ﷺ کا طرز عمل اور آپ کی تعلیمات کاتقاضا ہے کہ ہم اسلامی تہذیب اور طور طریقہ کو اپنائیں اور غیروں کی تہذیب اورطورطریقہ چھوڑ دیں۔ بطور خاص نئے سال کی آمد کے موقع پر جس کی جو غیر اسلامی تقاریب منعقد ہوتی ہیں ، ان میں شرکت سے بچیں۔
واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین (مسلم پرسنل لاء بورڈ )