غزہ میں گزشتہ 70 دنوں سے اسرائیلی بربریت جاری ہیں۔ اسرائیلی بمباری میں 60 فیصد غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے، 20 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور عمارتوں کے ملبے میں ہزاروں فلسطینی دفن ہو چکے ہیں۔ انسانی امداد کی قلت نے پریشان حال غزہ کے باشندوں کو بھوک مری کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔
- غزہ میں غذا کا شدید بحران
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں حیرت انگیز طور پر نصف ملین فلسطینی یعنی غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی وجہ سے محصور علاقے میں ناکافی انسانی امداد کے داخلے کے چلتے بھوک سے مر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں جو غذا کی مقدار پہنچ رہی ہے وہ انتہائی ناکافی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکنامسٹ عارف حسین کا کہنا ہے کہ "یہ ایک ایسی صورتحال ہے جب غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوکا ہے۔ 500,000 سے زیادہ لوگ یعنی نصف ملین لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں ہر چار میں سے ایک شخص بھوک سے مر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جنگ اسی پیمانے پر جاری رہی اور خوراک کی فراہمی بحال نہ کی گئی تو آبادی کو بیماری کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کے ساتھ اگلے چھ ماہ کے اندر ایک مکمل قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ اور غیر سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2.2 ملین غزہ کی آبادی خوراک کے بحران سے دو چار ہے یا اس سے بھی بدتر 478,000 بحران کی سطح پر ہیں اور 1.17 ملین ہنگامی سطح پر ہیں اور 576,600 تباہ کن ہیں یعنی بھوک کی سطح پر ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے ایکس پر لکھا ہے کہ، "ہم ہفتوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اس طرح کی محرومی اور تباہی کے ساتھ ہر آنے والا دن غزہ کے لوگوں کے لیے مزید بھوک، بیماری اور مایوسی لائے گا۔ "جنگ ختم ہونی چاہیے۔”
- غزہ میں صحت کا شعبہ بھی تباہ
جنگ کی وجہ سے غزہ کا صحت کا شعبے بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس کی 36 صحت کی سہولیات میں سے صرف 9 ابھی بھی جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے امدادی کارکنوں نے جمعرات کے روز شمالی غزہ کے دو اسپتالوں میں "ناقابل برداشت” مناظر کی اطلاع دی ہے۔ امدادی کارکنوں کے مطابق لا علاج زخموں کے ساتھ بستر پر پڑے مریض پانی کے لیے پکار رہے ہیں، ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس کوئی سامان نہیں ہے، اور کئی لاشیں صحن میں رکھی گئی ہیں۔