شاہی عیدگاہ مسجد
قومی خبریں

شاہی عیدگاہ مسجد سروے کی منظوری پر رد عمل

متھرا کی شاہی عیدگاہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پر اسد الدین اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کے وقار کو مجروح کرنا اب فرقہ پرست طاقتوں کا مقصد بن چکا۔ جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے۔

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق متھرا کی شاہی عیدگاہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ انتہائی افسوسناک اور خطرناک نتائج کا حامل ہوگا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے آج متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کی اجازت دے کر نہ صرف 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ یہ فیصلہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان 1968 میں ہوئے اس معاہدہ کے بھی خلاف ہے جس کے تحت مقامی ہندو اور مسلمانوں نے 13.37 ایکڑ زمین عیدگاہ اور مندر کے درمیان تقسیم کرلی تھی۔ یہ معاہدہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے درمیان ہوا تھا، جس کے مطابق 10.9 ایکڑ زمین کرشن جنم بھومی کو اور 2.5 ایکڑ زمین مسجد کے حوالے کی گئی تھی اور یہ بات طے پائی تھی کہ یہ تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح بابری مسجد تنازعہ کے دوران 1991میں مرکزی حکومت نے عبادت گاہوں سے متعلق ایک قانون منظور کیا تھا تاکہ اس طرح کے تمام تنازعات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اس قانون کے مطابق ملک کی آزادی 15 ؍اگست 1947 کے وقت جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی وہ علی حالہ باقی رہے گی۔امید کی جارہی تھی کہ اب کوئی نیا تنازعہ نہیں پیدا کیا جائے گا لیکن جن عناصر کو ملک میں امن و آشتی سے دشمنی ہے اور جو ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت پیدا کرکے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں وہ شاید ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

وہیں دوسری جانب اَ انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ ورکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے جمعرات 14 دسمبر کو متھرا اتر پردیش میں واقع شاہی عیدگاہ مسجد کا سروے کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر سخت تبصرہ کیا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ فیصلہ "بابری مسجد کے فیصلے کے بعد سنگھ پریوار کی شرارتوں کو تقویت بخشے گا، اور مزید کہا کہ "یہ عبادت گاہوں کے قانون کے باوجود اس طرح کی قانونی

چارہ جوئی پر پابندی ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ملک بھر میں فرقہ پرست طاقتوں کا مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا اب مقصد بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متھرا میں تنازعہ کئی دہائیوں قبل مسجد کمیٹی اور مندر کے ٹرسٹ کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پایا تھا، ایک نیا گروپ ان تنازعات کو بڑھا رہا ہے۔ کاشی ہو، متھرا ہو یا لکھنؤ کی ٹیلی والی مسجد ہو، یہ ایک ہی گروہ ہے جو اس طرح سے تنازعات کو جنم دے رہا ہے۔ کوئی بھی اس معاہدے کو یہاں پڑھ سکتا ہے، جو عدالت کے سامنے طے ہوا تھا۔

اویسی نے سوال کیا کہ "عبادت کی جگہوں کا ایکٹ اب بھی نافذ ہے۔ لیکن اس گروہ نے قانون اور عدالتی عمل کا مذاق اڑایا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت 9 جنوری کو کرنی تھی تو ایسی کیا جلدی تھی کہ سروے کا حکم دینا پڑا؟۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی عزتوں پر ڈاکہ ڈالنا اب ایک ہی مقصد ہے۔