مسلمان اپنے بیش قیمتی ووٹ کا استعمال صرف اسی کے حق میں کریں جس میں اس منصب کی قابلیت، لیاقت، اہلیت موجود ہو اور وہ امانتدار و دیانتدار بھی ہو۔ کسی امیدوارکے عیب جاننے کے باوجود اس شخص کو ووٹ دینا نہ صرف روح ایمان کے خلاف ہے بلکہ جھوٹی گواہی دینے کے مترادف بھی ہے اور جھوٹی گواہی دینا اسلام میں گناہ کبیرہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔
پوری عالم انسانیت کو واقعہ کربلا سے یہ بنیادی پیغام ملا ہے کہ مصائب و آلام کو برداشت تو کیا جاسکتا ہے لیکن کبھی کسی نااہل اور باطل پرست شخص کو ووٹ نہیں دیا جاسکتا اگرچہ اس کے پاس طاغوتی وسائل ہی کیوں نہ ہوں۔حضرت سیدنا امام حسینؓ کا یزید پلید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا معنی ہی یہ تھے کہ آپؓ اس کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔ آپ ؓ نے اپنے خانوادے کو لٹانا گوارا کیا لیکن یزید جیسے نااہل شخص کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرنا گوارا نہ کیا۔
درحقیقت سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسینؓ کی سیرت پاک قرآنی حکم ترجمہ : ’’اور ایک دوسرے کی مدد کرو نیکی اور تقوی (کے کاموں) میں اور باہم مدد نہ کرو گناہ اور زیادتی پر‘‘ (سورۃ المائدہ آیت 2) کا عکس جمیل ہے۔ حسینی کردار نے دنیا پر واضح کردیا کہ حقیقی مومن کسی حالت میں باطل کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرسکتا چونکہ اجتماعی زندگی کا سکون اور عدم اطمینان اسی حق رائے دہی کے استعمال سے وابستہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال دور رس نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کریں۔
علاوہ ازیں ووٹ ملک و ملت کی طرف سے ایک بھاری امانت ہے اور قرآن مجید نے مومنین کی یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ امانتوں کا پاس و لحاظ اور عہد کی پاسداری کرنے والے ہوتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’نیزوہ (مومن بامراد ہیں) جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں‘‘ (سورۃ المومنون آیت 8) اس آیت پاک کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ قرطبیؒ رقمطراز ہیں ’’ہر قسم کی ذمہ داری جو انسان اپنے ذمہ لیتا ہے خواہ اس کا تعلق دین سے ہو یا دُنیا سے ، گفتار سے ہو یا کردار سے، اس کا پورا کرنا مسلمان کی امتیازی شان ہے ۔ معاشرہ کا ایک ذمہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے جو فرائض اس پر عائد ہوتے ہیں ان سب کو بخوی انجام دینا مومن کی خصوصی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے۔
حق رائے دہی کا استعمال کرنا بھی انسان کی معاشرتی ذمہ داری ہے لہٰذا اس حق کا بھی بہتر انداز سے استعمال کرنا مومن کی مذہبی اور معاشرتی ذمہ داری ہے ۔ جو لوگ قوم و ملت کے عظیم مفادات کے بجائے ذاتی فوائد کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں درحقیقت وہ خیانت کررہے ہیں اور خیانت کرنا منافق کی علامت ہے چونکہ نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اسی لیے منافقین کا ٹھکانا جہنم کا بدترین اور پست ترین طبقہ ہے۔ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’بے شک منافق سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے دوزخ (کے طبقوبں) سے اور ہرگز نہ پائے گا تو ان کا کوئی مددگار‘‘ (سورۃ النسآء آیت 145) اس آیت پاک کی تفسیر میں علماء اسلام بیان کرتے ہیںکہ منافقین کو کفار سے زیادہ سخت ترین عذاب دیا جائے گا ۔جس طرح ہم سے نماز کے بابت بازپرس ہوگی ہم سے کل بروز محشر ووٹ کے استعمال کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گاچونکہ ووٹ ایک امانت ہے ۔
لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے دنیاو آخرت میں کامیابی و کامرانی کو یقینی بنائیں۔ ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی بھی ہے ۔یعنی جس کے حق میں ووٹ استعمال کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حق رائے دہی استعمال کرنے والے کی رائے کے مطابق اس نے اس امیدوار کو اس لیے ترجیح دی ہے چونکہ وہ علاقہ کے لوگوں کے مفادات کا تحفظ ،مسائل کو حل کروانے کی اہلیت رکھتا ہے اور امانتدار و دیانتدار بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم ایسے قائد کا انتخاب کریں جو عوام الناس کی فلاح و بہود کے لیے خدمت کا جذبہ رکھتا ہو وہی اس منصب کے لائق ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے حضورﷺ نے فرمایا قوم کا خدمت گزار ہی اس قوم کا قائد ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، المقاصد الحسنۃ) ۔
واضح باد کہ دین اسلام نے نظام عبادات میں کچھ رعایتیں مرحمت فرمائی ہیں جیسے پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا، دوران نماز قیام پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرنا ،روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہونے کی شکل میں فدیہ دینا، وغیرہ۔لیکن قیام عدالت میں دین اسلام نے مسلمانوں کو کوئی رعایت نہیں دی ہے چنانچہ دین اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اجرائے عدالت اور حق و صداقت کی سربلندی کے لیے محبت و نفرت کے جذبات ، مفادات و تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گواہی دیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں قیام عدالت کوکس قدر اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ ووٹ بھی ایک قسم کی شہادت ہے لہٰذا ووٹ دینے میں بھی اسلام کا یہی اصول کارفرما ہوگا۔ لہٰذا مسلمان اپنے بیش قیمتی ووٹ کا استعمال صرف اسی کے حق میں کریں جس میں اس منصب کی قابلیت، لیاقت، اہلیت ہو اور وہ امانتدار و دیانتدار بھی ہو۔ کسی امیدوارکے عیب جاننے کے باوجود اس شخص کو ووٹ دینا نہ صرف روح ایمان کے خلاف ہے بلکہ جھوٹی گواہی دینے کے مترادف بھی ہے اور جھوٹی گواہی دینا اسلام میں گناہ کبیرہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔
صاحب ایمان پر آذان کی آواز سنتے ہی مساجد کی طرف رخ کرنا لازمی ہے لیکن قرآن مجید نے بطور خاص جمعہ کے احکام اور آداب بیان کرتے ہوئے فرزندان اسلام کو حکم فرمایا ترجمہ : ’’جب (تمہیں) بلایا جائے نماز کی طرف جمعہ کے دن تو دوڑ کر جائو اللہ کے ذکر کی طرف اور (فوراً) چھوڑ دو خرید و فروخت یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو‘‘۔ (سورۃ الجمعہ آیت 9) اس آیت پاک کی روشنی میں علماء اعلام بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو جمعہ کے عظیم مراسم کی موقعیت اور حیثیت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے اور ان تمام مشاغل و مصروفیات جو جمعہ کی حاضری میں خلل انداز ہوتے ہیں ان سب کو ترک کردینے چاہیے چونکہ یہ دین اسلام کا وہ ہفتہ واری عظیم ترین عبادی ، اجتماعی اور سیاسی اجتماع ہے جہاں اسلام اور مسلمانوں کی زندگی کے اہداف و مقاصد بیان کیے جاتے ہیں۔
جمعہ کا اجتماع حج کی سالانہ کانفرنس کے بعد سب سے اہم ترین اجتماع ہے۔ خطیب اس دن دوران خطبہ اہم سیاسی، اجتماعی،اقتصادی اور امت مسلمہ کو درپیش دیگر اصولی مسائل کو موضوع سخن بناتا ہے جو اسلامی معاشرے میں ایک عظیم تحرک کا باعث ہے۔ پیر طریقت حضرت العلامہ ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی حفظہ اللہ تعالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی ؒ محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مذکورہ بالا آیت شریف کی اشارۃ النص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک کے سیاسی استحکام اور ترقی کے لیے ہر ہندوستانی پر لازم ہے کہ حق رائے دہی کے دن اپنی دیگر مصروفیات کو معطل کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کو ترجیح اور فوقیت دے یہی ہمارے حق میں بہتر ہے چونکہ اسی ایک دن پر مستقبل کے پانچ سال کا دار ومدار ہوتا ہے۔ اگر ہم سے اس دن ذرا سی غفلت یا کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کے بھیانک نتائج پانچ سال تک ہم کو بھگتنے پڑیں گا اور اگر صحیح فیصلہ کیا تو اس کے فوائد و ثمرات سے پانچ سال تک مستفید ہوسکیں گے‘‘۔
اسی لیے بعض علماء کرام کا خیال ہے کہ ووٹ کو دین اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے چونکہ عبادت دراصل رب کے احکامات ماننے کو کہتے ہیں اور ووٹ میں امانت اور شہادت کا پہلو ہے جن کے متعلق قرآن حکیم متعدد بار حکم فرمارہا ہے کہ ان کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ اسلامی تعلیمات سے انحراف امت مرحومہ کی پسماندگی کا ایک اہم عامل ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں اس کوتاہی کی طرف فوری توجہ کرتے ہوئے عملی اقدامات کرنے چاہیے۔ جمہوریت میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتی ہے جو اپنے ووٹ کے استعمال سے کسی کو بھی تخت پر بٹھاسکتی ہے اور کسی کو بھی اقتدار سے دور رکھ سکتی ہے۔حق ووٹ کا استعمال کرنا ایک سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کا صحیح استعمال ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے تو وہیں اس کا غلط استعمال ملک اور قوم کو بدحالی کا شکار بنادیتا ہے۔
آزادی کے تقریباً سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بے بہا قدرتی وسائل اور قوت افراد کا حامل وطن عزیز ہندوستان غربت ، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر بنیادی مسائل کا جو شکارہے اس میں ووٹ کے غلط استعمال کا بڑا دخل ہے۔ ہندوستانی عوام ووٹ کی اہمیت و طاقت سے لا علمی کی بناء پر ووٹ کا استعمال دیرینہ و بنیادی مسائل کے حل کے کے بجائے جذبات و رسمی مروت ، ذاتی مفادات وعلاقائی عصبیت، ذات پات و لسانی نفرت ، شناخت و قومیت ، قرابت و تعلقات ، توقعات و رجحانات ، نظریات و شخصیات کی بنیاد پر کرتے ہیںجو ہمارے سیاسی شعور کے فقدان کا عکاس ہے۔ ہماری اسی خامی کا سیاسی لوگ آسانی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بحیثیت ہندوستانی ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال عزم راسخ اور مضبوط ارادے سے کرے۔ ابنِ رشد نے کہا تھا کہ جاہلوں ! پر حکمرانی چاہتے ہو تو ’’مذہب‘‘ کا غلاف اوڑھ لو۔ ہندوستان کی سیاست تو مذہب کے اطراف و اکناف ہی گھومتی ہے۔ عوامی مسائل میں دلچسپی نہ سیاسی رہنمائوں اور و قائدین کو ہے اور نہ ہی جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھے جانے والے صحافت کو ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قومی چینل پر روزآنہ ایسے مباحث ہوتے ہیں جو مذہبی منافرت پھیلانے کا سبب ہیں۔ کاش اسی شدت کے ساتھ پٹرول و ڈیزل کے بڑھتی ہوئی قیمتوں، مہنگائی، بیروزگاری، کسانوں کی اموات ، گھوٹالوں، علاج و تعلیم، فضائی و آبی آلودگی جیسے دیرینہ اور بنیادی مسائل پر مباحث کروائے گئے ہوتے تو کم از کم نصف مسائل کا حل از خود ہوگیا ہوتا۔
عوام الناس بارہا شکایت کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین کو ملک کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،وہ تو صرف اپنے اور اپنے خاندان کی بھلائی کی سونچتے ہیں، قومی چینلوں کو صرف اپنی TRP بڑھانے کی فکر ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو عوام بغیر غور و فکر کیے تعصب کا شکار ہوکر اپنا قیمتی ووٹ گنوادیتے ہیں۔ لوگوں کو مورد الزام ٹہرانے سے بہتر ہے کہ ہر ہندوستانی سسٹم کو موثر و کارکرد بنانے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرے۔
ہندوستان کے جمہوری نظام میں پائی جانے والی تمام خامیوں اور بہتر طرز حکمرانی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستانی عوام تمام وابستگیوں سے اٹھ کر ووٹ کا صحیح استعمال ملک و قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر کرے۔ ووٹ کا صحیح استعمال نہ صرف جمہوری بنیادوں کو مزید تقویت دیتا ہے بلکہ ملک میں سیاسی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔