ماؤں کی اسلامی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ، عبد اللہ ابن مبارکؒ، امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، حضرت سیدنا غوث اعظمؒ، فرید الدین گنج شکرؒ جیسی عبقری شخصیات نکھر کر دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئیں۔
بچے مستقبل کے معمار ہیں اگر اُنھیں مناسب تعلیم اور صحیح تربیت دی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک اچھا اور مضبوط معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام مختلف ایام میں یومِ اطفال مناتی ہیں۔ پہلی بار عالمی یوم اطفال 1953ء کو انٹر نیشنل یونین فار چلڈرن ویلفیئر کے تحت منایا گیا جسے بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی منظوری دے دی۔ پہلی بار جنرل اسمبلی کی طرف سے 1954ء کو یہ دن منایا گیا، اس طرح ہر سال 14 نومبر کو یہ دن منایا جاتا ہے ۔
عالمی یوم اطفال منانے کے مقاصد تو کئی ایک ہیں، جن میں بنیادی طور پر بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے کس ومجبور بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں فراہم کرنا وغیرہ اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔
اسلام نے بچوں کو بھی ان کے حقوق عطا کئے ہیں بالخصوص نبی اکرم ﷺ نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتا ہے اور ہمارے لیے روشن شاہراہ بھی، ان کی اسلامی نگہداشت کا غماز بھی ہے اور مستقبل سازی میں معاون و مددگار بھی۔
اللہ تعالی نے بچوں کو نعمتِ عظمیٰ قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے: اور اللہ نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا (سورۃ النحل )۔
غرض اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے، ان کی پرورش اور تربیت کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے پھر ان بچوں کا درجہ سرپرستوں کے پاس خدائی امانت کا ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے، ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش، تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر اور زبردست نقصان کا باعث ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تو لازمی طور پر ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں آپؐ نے بچوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے انھیں خاص اہمیت دی ہے۔ بچوں کو اسلام کے عطا کردہ مندرجہ ذیل حقوق ہیں۔
جینے کا حق:
اسلام نے بچوں کو زندگی کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائز باہمی تعلق محض ایک تفریح نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ ہے۔ اس بناء پر اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔
نسب و شناخت:
اسلام نے بچوں کو ایک شناخت اور پہچان عطا کی ہے۔ اس غرض سے اسلام نے خاندان کی صورت میں جو نظام وضع کیا ہے، وہ بچے کو جہاں ایک مضبوط سائبان عطا کرتا ہے، وہیں اسے ایک شناخت بھی دیتا ہے، اور تیسری جانب خاندان کو اس کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ دار بھی ٹھہراتا ہے۔ اگر کوئی خاندان، سرپرست یا والدین یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو وہ گناہ گار ہے، جب کہ اس فریضے کو ادا کرنے والوں کو اپنے اپنے حصے کے مطابق اجر و ثواب بھی دیا جاتا ہے۔
نام رکھائی:
ناموں کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے اسلام نے بچے کو یہ بھی حق عطا فرمایا کہ اس کا موزوں اور اچھا نام رکھا جائے، اور والدین پر اولاد کا یہ ایک اہم حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔
تربیت و پرورش
بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش اسلامی طریقہ پر کی جائے۔ آپﷺ نے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا: “آگاہ ہو جاٶ! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں روزِ قیامت پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری و مسلم)
بچوں کی پرورش، خوراک، لباس، تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، عموماً والدین یہ فرائض انجام تو دیتے ہیں، لیکن اسلام انھیں والدین کا مستقل فریضہ قرار دیتا ہے، جس کی ادائیگی پر وہ علیحدہ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور عدم ادائیگی کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
عقیقۂ مسنونہ:
عقیقے کی روایت عربوں میں پہلے سے موجود تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اصلاح فرمائی اور اسے بچے کا حق قرار دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے کی پیدایش پر جانور ذبح کیا جاتا اور پھر اس کے خون سے بچے کو رنگ دیا جاتا۔ اسلام نے اس کی ممانعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقے کی یہ صورت بیان فرمائی: جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، اور وہ قربانی کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا قربان کرے۔ (ابوداٶد)
عمدہ تعلیم :
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے بلا تفریق طبقات و قبائل و بلا تخصیص مرد و عورت سب کے لیے بلا امتیاز و بلا اختصاص عام تعلیم کی آواز کو بلند کیا، اور نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے (ابن ماجہ)۔ گویا تعلیم ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت اور کالے و گورے، ہر ایک پر فرض ہے۔ اس بناء پر اولاد کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر ہدیہ نہیں دے سکتا۔ (ترمذی شریف)
اسلامی تربیت:
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عصر حاضر کے نام نہاد دانشوروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ علم کے نام پر جو لاعلمی پھیلائی جارہی ہے، اس کی خرابیاں اپنی جگہ پر مگر تربیت کی طرف کوئی ذہن بھی توجہ نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت بغیر پھل دار درخت سے زیادہ کچھ نہیں۔
ماؤں کی اسلامی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ، عبد اللہ ابن مبارکؒ، امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، حضرت سیدنا غوث اعظمؒ، فرید الدین گنج شکرؒ جیسی عبقری شخصیات نکھر کر دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئیں۔
مساوی سلوک:
ابتداء سے یہ رجحان بھی چلا آرہا ہے کہ بعض اوقات تمام بچوں میں برابری نہیں برتی جاتی۔ کبھی لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے تو کبھی لڑکوں کے درمیان بھی کسی وجہ سے یا بلا وجہ فرق کیا جاتا ہے۔ یہ تفریق اسلام میں قطعاً پسندیدہ نہیں۔ نبیِ رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، اور سب بچوں کے درمیان مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ایسے والدین کو اجر و ثواب میں بشارت دی ہے، جو بچوں کی صحیح پرورش کریں اور سب کے درمیان مساوی سلوک کریں۔
ان کے علاوہ اولاد کے لیے مناسب اسلامی رشتوں کی تلاش ،شرعی حدود وقیود کے ساتھ نکاح کی تکمیل اور گاہ بہ گاہ ان کی نگرانی وخیر خواہی وغیرہ بھی والدین کے حقوق میں داخل ہے۔
ہم صرف ایک دن یوم اطفال کے موقع پر مختلف تقاریب منعقد کرکے بچوں کے بنیادی حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتے، مسلم معاشرہ کو بچوں کی دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی طرز پر ان کی تربیت لازمی و ضروری ہے تاکہ صالح معاشرہ تشکیل پاسکے۔ اور موجودہ دور میں کئی مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے ارتداد، غیروں کے ساتھ تعلقات، غیروں کے ساتھ شادیوں کی خبریں آئے دن اخبارات کی سرخیاں بنتی ہیں۔ یہ سب اسلامی طرز پر تربیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے جس کے سب سے پہلے والدین، سرپرست ذمہ دار ہیں۔
ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ بچوں کے نہ صرف بنیادی حقوق ادا کریں گے بلکہ ان کی بہتریں نشوو نما اور اسلامی طرز پر ان کی تربیت کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بھی بروئے کار لائیں گے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کریں گے جن کی وجہ سے بچے بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے راہ روی، بے دینی اور اخلاقی پستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔