قومی خبریں

پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار مسلم رکن کی ایوان میں تذلیل

حیدرآباد: ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کے لئے انتہائی نازیبا زبان کا استعمال کیا گیا۔ بی جے پی کے ارکان کی یہ تاریخ و روایت رہی کہ وہ سڑکوں پر مسلمانوں کے خلاف نہ صرف نازیبا زبان استعمال کرتے رہتے ہیں بلکہ لوگوں کو مسمانوں کے خلاف بھڑکاتے بھی ہیں۔ تاہم اب پارلیمنٹ کے اندر بھی انتہائی گھٹیا زبان کا استعمال کیا جارہا ہے جو سیکولر ملک کی شناخت پر انتہائی بدنما داغ ہے۔

بی جے پی رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں انہیں مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے اندر بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمان دانش علی کی تذلیل کرتے اور ان کے خلاف انتہائی نازیبا تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بی جے پی رکن پارلیمنٹ 21 ستمبر کو پارلیمانی کارروائی کے دوران دانش علی کو “مسلم اوگراوادی” (مسلم دہشت گرد)، “بھڑوا” (دلال) اور “کٹوا” (ختنہ شدہ) کہا۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے کہاکہ ’’یہ ملا آتنک وادی ہے، باہر پھینکو اس ملے کو‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بیدھوری اس طرح کی انتہائی گھناؤنی حرکت کررہے تھے تو بی جے پی کے متعدد سینئر رہنماؤں نے انہیں روکنے کی یا ٹوکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ مسکراتے نظر آئے۔ اسی طرح اسپیکر نے بھی ان کے تبصرہ پر اعتراض نہیں کیا۔

اس واقعہ پر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بیدھوری کے گھٹیا الفاظ کو سرکاری ریکارڈ سے خارج کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے شدت پسند بیدھوری کے خلاف کسی طرح کی کوئی کاروائی کا ذکر نہیں کیا۔

سوشل میڈیا پر بی جے پی ایم پی کے خلاف شدید ردعمل

مایاوتی کی قیادت والی سیاسی جماعت بی ایس پی کے رکن پارلیمان کنور دانش علی پارلیمنٹ میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے معاملے پر آج کہا کہ وہ بھاری دل کے ساتھ پارلیمنٹ کو چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو یہ فیصلہ لے سکتے ہیں۔ دراصل گزشتہ روز رمیش بدھوڑی نے ایوان زیریں میں کنور دانش علی کے خلاف فرقہ وارانہ گالی گلوچ کی تھی۔

کنور دانش علی کا کہنا ہے کہ اگر میرے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو عام آدمی کا کیا ہوگا؟ دانش علی نے مزید کہا کہ وہ ساری رات سو نہیں سکے کیونکہ انہیں لگا کہ ان کا دماغ ‘پھٹنے’ والا ہے۔

رکن پارلیمان کنور دانش علی نے سوال کیا کہ یہ خصوصی اجلاس منتخب ممبران پارلیمنٹ کو ان کی برادری سے جوڑ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے بلایا گیا تھا؟ اس نے پورے ملک کو شرمندہ کیا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ ان کی پارٹی اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی یا اسے فروغ دے گی۔ انہوں نے لوک سبھا اسپیکر کو ایک خط پیش کیا ہے جس میں بدھوری کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کنور دانش اپنے خط میں کہا کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے ان کے خلاف انتہائی نازیبا زبان کا استعمال کیا ہے جو لوک سبھا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ آپ کی قیادت میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ہوا ہے بحیثیت سپیکر اس عظیم قوم کے اقلیتی رکن اور پارلیمنٹ کے ایک منتخب رکن کی حیثیت سے میرے لیے واقعی دل دہلا دینے والا ہے۔

رکن پارلیمان کے مسلم مخالف تبصرہ پر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھڑوا، کٹوا، مُلا آتنگ وادی (دہشت گرد)۔ اس نفرت انگیز ’محترم‘ ایم پی کی زبان کتنی آسانی سے پھسل جاتی ہے! مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اب آسان اور عام بنا دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایسا ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘‘

عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’وہ مسلمان جو بی جے پی کو اپنی پارٹی کے طور پر پہچانتے ہیں، نفرت کی اس سطح کے ساتھ ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘ ادھر، جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی دختر اور اُنکی میڈیا مشیر نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزراء ہرشوردان اور آر ایس پرساد کے قہقہے پر سوال اٹھایا ہے۔

التجا کا کہنا تھا کہ ’’دو سابق مرکزی وزراء اپنے ایک ساتھی کی جانب سے ایک مسلم ایم پی کو – بھڈوا، کٹوا اور ملا آتنک وادی کہنے پر قہقہے لگا رہے ہیں۔‘‘ التجا مفتی نے بی جے پی کی مسلم مخالف آئیڈیولاجی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف اس نفرت کو اب نارمل کیا جا رہا ہے؟‘