month of safar
اسلامی مضامین

ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا روایت و درایت اسلامی کے خلاف

ماہ صفر کو منحوس سمجھنا یا یہ گمان کرنا کہ اس ماہ میں کثرت سے بلائیات کا نزول ہوتا ہے نہ نقلاً ثابت ہے اور نہ ہی عقلاً اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ ہجری تقویم یعنی اسلامی کیلنڈر کے دوسرے مہینہ کا نام صفر ہے جس کی صفت المظفر بیان کی گئی ہے جس کے معنی فتح و ظفریابی کے ہیں جب کہ نحوست شقاوت و بدبختی اور ناکامی و نامرادی کا سبب ہوتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ دو متضاد چیزیں باہم جمع نہیں ہوسکتیں۔ مثلاً اگر ایک انسان کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا جائے کہ وہ طویل القامت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پستہ قد نہیں ہے بیک وقت یہ دو صفات کسی انسان میں پائی جائیں محال ہے۔

صفر کے لغوی معنی خالی کے ہیں عرب قبائل ماہ محرم میں جنگ سے باز رہتے اور جیسے ہی ماہ صفر کا آغاز ہوتا جنگ و جدال، لوٹ کھسوٹ کے لیے نکل پڑتے اس طرح ان کے گھر خالی ہوجاتے اسی لیے اس مہینہ کو صفر کہا جاتا ہے۔ چونکہ ظلم و زیادتی اس ماہ میں عروج پر ہوتی جس کی وجہ سے لوگوں کو بھاری نقصانات برداشت کرنے پڑتے اسی لیے وہ لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے جیسے آج کے لوگ ماہ ستمبر کو ستمگر گمان کرنے لگے ہیں چونکہ اسی ماہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور ہندوستانی پارلیمان پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا۔ جبکہ حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ATM اسی ماہ میں معرض وجود میں آیا تھا جس کی بے پناہ سہولیات سے کئی لوگ آج استفادہ کررہے ہیں۔

دنیا کی مشہور جامعہ ہارورڈ یونیورسٹی اسی ماہ میں قائم کی گئی تھی جس سے کئی تشنہ گانِ علم اپنی علمی پیاس بجھارہے ہیں۔ اسی ماہ کی 5 تاریخ کو ہندو ستان میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے جن کی مخلصانہ کاوشوں کے باعث علم و تحقیق میں نئے ابواب رقم ہورہے ہیںاور علم کو فروغ مل رہا ہے۔ تو اس ماہ کو کیسے منحوس سمجھا جاسکتا ہے؟۔ صفر کے دوسرے معنی پیلے رنگ کے ہیں چنانچہ صفر ان کیڑوں کو بھی کہتے ہیں جوجگر اور پسلیوں میں تخلیق پاتے ہیں جس کے باعث انسان کے جسم کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے جسے عرف عام میںعرقان کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس مہینہ کا نام صفر اس لیے رکھا گیا ہے چونکہ جب مہینوں کے نام تجویز کیے جارہے تھے تو اس وقت یہ مہینہ خزاں کے موسم میں آیا تھا جس میں پتے زرد پڑجاتے ہیں اسی لیے اس ماہ کو صفر سے موسوم کیا گیا۔

زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کو لوگ مختلف وجوہات سے منحوس سمجھتے تھے بعض لوگوں کا یہ ایقان تھا کہ ماہ صفر میں آسمانی بلائیات اور دنیوی مصائب کثرت سے واقع ہوتی ہیں جبکہ یہ سونچ سرار خرافات و نامعقولیت پر مبنی اور بالکل غیر اسلامی ہے چونکہ حضرت سیدنا جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے محبوب کردگارﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ماہ صفر کو بیماریوں، برائیوں اور نحوستوں کا مہینہ سمجھنا غلط ہے (مسلم )۔ اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت یا دوری کے سبب آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں بعض ضعیف الایمان لوگ ایسے بھی ہیں جو ان فرسودہ رسومات، مشرکانہ توہمات اور عقائد باطلہ کا شکار نظر آتے ہیں چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں انجام دی جانے والی شادی کامیاب نہیں ہوتی، اس ماہ میں شروع کردہ تجارت نفع بخش ثابت نہیں ہوتی، اس ماہ کے پہلے تیرہ دن بالخصوص تیرہ تاریخ بدبختیوں، تکلیفوں اور نحوستوں سے مملو ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ فکر درایت اسلامی کے اس لیے خلاف ہے چونکہ حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رسول محتشمﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمانو! اللہ تعالی نے اس دن (یعنی جمعہ) کو تمہارے لیے عید کا بن بنایا ہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) اور ایک روایت حضرت اوس بن اوس ثقفیؓ سے مروی ہے تاجدار کائناتﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ جمعہ کے لیے جتنے قدم چل کر آتا ہے اسے ہر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں کا ثواب اور ایک سال کی راتوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے ۔ (ابو دائود) مریض کی عیادت کرنے کی فضیلت کے باب میں حضرت علیؓ سے ایک حدیث شریف مروی ہے تاجدار مدینہﷺ فرماتے ہیں جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے شام تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو شام کے وقت عیادت کرتا ہے اُس کے لیے ستر ہزار فرشتے صبح تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ (ترمذی )

اب اس امر پر غور فرمایے کہ جمعہ کا دن یا مریض کی عیادت کے لیے جانا مہینہ کی کسی بھی تاریخ میں ہوسکتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کسی سال جمعہ کا دن ماہ صفر کی تیرہ تاریخ کو واقع ہوجائے یا ہم اسی تاریخ کو مریض کی عیادت کرنے کے لیے جائیں اور محولہ بالا احادیث نبویﷺ کی روشنی میں جمعہ مومنین کے لیے عید کا دن، گناہوں سے بحشائش اور حصول حسنات کا سبب اور مریض کی عیادت رحمت و مغفرت کی وجہ ہے توماہ صفر کی تیرہ تاریخ کیسے منحوس قرار پاسکتی ہے؟ بطور تمثیل پیش کیے گئے ان دلائل سے یہ بات اظہر الشمس ہوجاتی ہے کہ نحوستوں کا تعلق کسی لمحہ،دن، ماہ، سال، شخصیات، زمان و مکان سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تو شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

اسی لیے دین اسلام ہر اس عمل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے جس کی اساس اندھی تقلید اور توہم پرستی پر ہو۔ مسلمان کسی چیز کو اس لیے منحوس نہیں سمجھ سکتا چونکہ یہ امر روحِ تصور توحید کے بالکل مغائر و منافی ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیںکسی چیز کو منحوس سمجھنا شرک ہے۔ (سنن ابی دائود،) گیارہویں صدی ہجری کے مشہور مفسر، محدث اور فقیہ حضرت علی بن سلطان محمد القاری المعروف ملا علی قاری (1014/1605) اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ بندے کا مشیت الہی کے بغیر کسی چیز کوبذات خود اثر انداز ہونے کے قابل سمجھنا شرک ہے اور کسی چیز کو منحوس سمجھنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ (مرقآۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح)

ماہ صفر کو بندہ مومن اس لیے بھی منحوس نہیں سمجھتا چونکہ اُس کا اس بات پر کامل ایقان و بھروسہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی بندے کو نفع پہنچانا چاہے تو ساری کائنات مل کراسے نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی کسی بندے کو نقصان پہنچانا چاہے تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر اسے نفع نہیں پہنچاسکتیں۔ اگر کسی انسان کی حفاظت پولیس یا فوج کا حفاظتی دستہ کررہا ہو تو اس شخص کو کوئی بھی اس وقت تک گزند نہیں پہنچاسکتا جب تک وہ حفاظتی دستہ کی نگرانی میں ہو ۔ یہ کتنی احمقانہ سونچ ہوگی کہ ایک طرف ہم اپنے کامل ایقان کا اظہار کریں کہ جس کی حفاظت مسلح افواج کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا تو دوسری طرف توہم پرستی کا شکار ہوکر یہ عقیدہ رکھیں کہ نحوستیں اس شخص کو ضرر پہنچاسکتی ہیں جس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ربِ کائنات ہے۔

مصائب و آلام ، آفات و مشکلات انسان کی بداعمالیوں کی وجہ سے آتی ہیں نہ کہ کسی ماہ و سال کے سبب ۔ نحوستیں تو ذاتی رنجشوں، خاندانی چپقلش، معاندانہ جذبات، کذب و جدل، بزدلانہ حسد، کینہ پروری، مکر و فریب، شدید احساس کمتری، فطری ذلالت، شیطانی مزاج ، ظلم و جبر، شرپسندی ، فتنہ پردازی، کفر و عصیاں ، سوقیانہ مخالفت ، غیبت، بہتان طرازی،طنز و تشنیع کی وجہ سے آتی ہیں۔ اگر معاشرے کو حقیقتاً ان نحوستوں سے پاک کرنا ہے تو ہمیں ماہ و سال کو برا سمجھنے کے بجائے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے اجتناب کرنا پڑے گا، اسلامی تربیت کے خطوط پر اولاد کی پرورش کرنی پڑے گی۔

حسنِ سلوک کو عام کرنا پڑے گا، جذبۂ ایثار وقربانی کو فروغ دینا پڑے گا، غربا و مساکین کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا پڑے گا، کفر و الحاد اور مذہب بے زاری کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنا پڑے گا، کشت و خون اور جنگ و جدال کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا، صلح اور باہمی مفاہمت کے جذبہ کو پروان چڑھانا پڑے گا، دنیا داری اور غیر شرعی امور سے اپنے دامن کو پاک کرنا پڑے گا، عریانی و فحاشی کے خلاف صف آرا ہونے پڑے گا، فتنہ و فساد کی روش ترک کرنا پڑے گا، مغربی تہذیب و ثقافت کی اندھی تقلید سے نوجوان نسل کو بچانا پڑے گا، افعال و اعمال کا جائزہ لینا پڑے گا، زندگی کے ہر لمحہ کا محاسبہ کرنا پڑے گا، اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرنا پڑے گا، رنگ و نسل، حاکم و محکوم کے باطل امتیازات کو مٹانا پڑے گا، اخوت و بھائی چارگی کی فضا قائم کرنی پڑے گی۔

ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی اس منفی سونچ کو بدلنے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ روحِ ایمان کو تقویت دیں اور دلوں میں خدا پر توکل و اعتمادکو پیدا کریں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں تعلیمات اسلامی اور اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین.