مظفر نگر (اترپردیش) کے نیہا پبلک اسکول میں بچّے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں، ریاضی کی اُستانی ترپتا تیاگی بچوں سے پہاڑے سن رہی ہے، ایک طالب علم پہاڑا سنانے سے قاصر ہے جس پر استانی صاحبہ درجے میں اعلان کرتی ہے کہ سب طلبہ باری باری سے یہاں آئے اور اس لڑکے کے گال پر تھپّڑ رسید کرے۔ بچّے باری باری آتے ہیں اور گال پر تھپّڑ رسید کرتے ہیں، ترپتا تیاگی ناراض ہوجاتی ہے کہتی ہے "تم لوگ زور سے نہیں مار رہے ہو” ایک آدمی پرسکون انداز میں سارے منظر کی عکس کررہا ہے جیسے معمول کا کوئی واقعہ چل رہا ہو۔
اب تک تو یہی لگتا ہے کہ ریاضی کی کوئی سخت گیر اور بچوں کی نفسیات سے ناآشنا کوئی استانی جہالت بھرے انداز میں علم کا پاٹھ پڑھارہی ہے مگر تڑپتے طالب علم کو دیکھ کر ترپتا تیاگی کو مزہ آتا ہے کہتی ہے "میں نے تو فیصلہ کردیا ہے کہ سارے محمدی طلبہ ان کے وہاں چلے جائیں۔” پھر روتے ہوئے بچے کی طرف دیکھ کر ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمان جاری کرتی ہے کہ بس اب منہ لال ہوگیا ہے اب کمر پر مارو، چلو! کس کی باری ہے؟ بچّے آتے ہیں اور باری باری سے پیٹ کر چلے جاتے ہیں۔
ویڈیو وائرل ہوتی ہے پولیس تک بھی پہنچتی ہے مگر مظلوم طالب علم کا باپ کیس درج کرنے پر آمادہ نہیں ہے، وہ ڈرا سہما ہے جیسے اسے معلوم ہو کہ اکثریتی طبقے کے زہرناک افراد کے خلاف کیس درج کرنا بھی ایک جرم ہے۔ افسران اسے سمجھارہے ہیں مگر وہ اپنی بات پر بضد ہے کہ وہ اپنے لختِ جگر کو نہ اس اسکول میں دوبارہ بھیجے گا اور نہ ہی پولیس میں شکایت درج کروائے گا۔
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے اس سماج کا جہاں کے باشندے چاند پر کمند ڈالنے کا جشن منارہے ہیں۔ بچّے جہالت کے اندھیرے میں زمین پر بیٹھ کر علم کی شمع سے فیضیاب ہونا چاہتے ہیں مگر علم کی شمع روشنی بکھیرنے کے بجائے زہرآلود دھواں فراہم کررہی ہے۔ ایسا ایک واقعہ ہوتا تو اسے گندی مچھلی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا تھا مگر کیا کیا جائے جب سارا تالاب ہی گندا ہوچکا ہو؟ ایک مخصوص طبقے کی بستی پر جنونی حملہ کرتے ہیں، نشیمن اجاڑتے ہیں، خون بہاتے ہیں، خوف و ہراس کا ماحول بناتے ہیں، پولیس خاموش تماشائی کی طرح درندوں کا رقص دیکھتی ہے اور جب رقص ختم ہوتا ہے تو مظلوم طبقے کو جوانوں کو دھر دبوچتی ہے، انہیں زندانوں میں ٹھونستی ہیں، عدالتوں میں رسوا کرتی ہے، دامن داغدار کرتی ہے اور مستقبل برباد کرتی ہے۔
یہاں پنچایتیں مشترکہ طور پر مہاپنچایت منعقد کرتی ہے اور باہمی مشورے سے اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ ناگزیر ہے اور یہی وقت کا پرزور مطالبہ ہے۔ چلتی ریل گاڑی میں عوام کا محافظ پولیس افسر بندوق نکالتا ہے اور دو مسلم جوانوں پر فائر کردیتا ہے محض اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں، گرفتار کیے جانے پر وہ فخریہ کہتا ہے کہ اسے موقع ملتا تو وہ مزید مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔
روس، امریکہ اور چین کے بعد چاند پر قدم رکھنے والے ملک ہندوستان کا ایک صوبہ منی پور آج بھی جھلس رہا ہے، کچھ ماہ قبل فسادیوں نے ایک پوری بستی اجاڑ کر یہاں کی شاہراہ پر دو عورتوں کی برہنہ بدن پریڈ کروائی تھی۔ مذہب کے نام پر نکلنے والی یاتراؤں میں کاٹنے پیٹنے کے نعرے لگتے ہیں، مذہب کے محافظوں کے اجلاس میں مخصوص طبقے کی عورتوں کو محبّت کے جال میں پھانسنے کی تعلیم دی جاتی ہے، اسکولوں کے نصاب میں دیومالائی کہانیوں کا اضافہ ہے اور سماجی رواداری کے اسباق زوال پذیر، حجاب پر آوازیں اٹھتی ہیں، قوانین بنتے ہیں، مذہبی آزادی پر پہرے لگانے کا شور ہوتا ہے، سڑک پر پڑھی جانے والی نماز جرم ہے اور پوجا عین عبادت۔۔۔
کہاں تک لکھا جائے؟ کس کس زخم کی روداد بیان کی جائے؟ اور کتنے سماجی جرائم سے پردہ اٹھایا جائے؟ ملک کی ہر گلی سے دھواں اٹھتا نظر آتا ہے اور اس دھویں میں اچھے برے سب مل کر رہ گئے ہیں، آنکھوں میں خوف ہے، ڈر ہے، غم ہے، غصّہ ہے، کل تلک انہیں آنکھوں میں اعتماد تھا، امید تھی، اپنائیت کا اظہار تھا اور ہمدردی کا جذبہ بھی۔
اسرو کے سائنسدانوں کا کارنامہ یقینا قابلِ مبارکباد ہے، اچھی پیشرفت ہے اور انکشافات کے سمندر میں گہری غوطہ زنی! ہم سائنسدانوں کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں مگر جشن منارہے ہر ہندوستانی سے بھی شکایتاً عرض ہے کہ ہم چاند پر پہنچ چکے مگر زمین پر رہنے کا سلیقہ نہیں سیکھ پائے، چاند پر کمند ڈالنے کا جشن ایک طرف اور انسانیت پر کیے جانے والے مظالم کا نوحہ دوسری طرف۔۔۔۔۔
( مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں )