خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے سوانح نگاروں نے ایک واقعہ بیان کیا ہے: مصر کے ایک شخص نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی : ” اے امیر المومنین! مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ مجھے انصاف دلائیے۔ میں نے گھڑ سواری کے ایک مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ اس میں مصر کے گورنر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کا بیٹا بھی شریک تھا۔ میرا گھوڑا اس کے گھوڑے سے آگے بڑھ گیا۔ اس پر وہ طیش میں آگیا۔ اس نے مجھے ایک کوڑا مارا اور کہا : "میں معزّز ماں باپ کا بیٹا ہوں۔ "
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی شکایت کو سنجیدگی سے لیا۔ انھوں نے گورنرِ مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کے ساتھ دربارِ خلافت میں طلب کیا۔ وہ پہنچے تو شکایت کرنے والے مصری کو بھی بلایا۔ تفتیش کی تو اس کا الزام درست پایا۔ انھوں نے اس کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور فرمایا : ” جس نے تمہیں کوڑا مارا تھا، بدلے میں تم بھی اسے کوڑا مار لو۔ ” مصری اٹھا اور اس نے بدلہ لے لیا۔
حضرت عمر نے فرمایا : "ابن العاص کی چندیا پر بھی ایک کوڑا لگاؤ۔ "
مصری نے کہا : ” امیر المومنین ! جس نے مجھے مارا تھا میں نے اُس سے بدلہ لے لیا ہے۔ "
اس موقع پر حضرت عمر بن الخطاب نے بڑا تاریخی جملہ فرمایا تھا :
مَتی استَعْبَدْتُمُ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُم اُمَّہَاتُھم اَحرَاراً ” تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا ہے۔ ان کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا تھا۔ "
یہ ہے حقیقی آزادی کا وہ تصوّر جو اسلام نے پیش کیا ہے اور اس کے ماننے والوں نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
اسلام ایسا سماج قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہو : غور و فکر کرنے کی، اپنے لیے کوئی بھی طریقۂ زندگی اختیار کرنے کی، اپنی جان، مال اور عزّت و آبرو کی حفاظت کی۔
اسے آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے روزگار اختیار کرے، جہاں چاہے آئے جائے، اس پر کوئی پابندی نہ ہو اور اس کے لیے کوئی روک ٹوک نہ ہو۔
اسے تمام شہریوں کے درمیان مساوات حاصل ہو۔ جو حقوق دوسروں کو حاصل ہوں اس سے وہ بھی بہرہ ور ہو۔ جن سہولیات سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں ان سے وہ بھی فیض اٹھا سکتا ہو۔ تمام شہریوں کے درمیان کسی طرح کی اونچ نیچ اور بنیادی انسانی حقوق میں کوئی فرقِ مراتب نہ ہو۔
ہر شہری عدل و انصاف سے بہرہ ور ہو۔ اس کو یہ تحفّظ حاصل ہو کہ کوئی اس پر ظلم نہ کرسکے اور اگر ظلم کر بیٹھے تو اسے مفت میں انصاف مل سکے۔ ریاست کی ذمے داری قرار پائے کہ وہ ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کرے اور مظلوم کی داد رسی کرے۔ ریاست میں قانون کی حکم رانی قائم ہو اور وہ بلا تفریق تمام شہریوں پر نافذ ہو۔
مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ تاریخِ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں قانون کی یہ حکم رانی قائم تھی۔ اسلامی ریاست کے تمام شہری امن و امان، عدل و انصاف، مساوات سے بہرہ ور ہوتے ہوئے آزادی کی کھلی فضاؤں میں سانس لیتے تھے۔ یہ اسلام کا زرّیں دور تھا۔ آج بھی اس کی مثال دی جاتی ہے، حتّی کہ دشمن بھی اس کا بَرملا اعتراف کرتے ہیں۔
برِّصغیر کے لوگ آج کل آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہندوستان کے شہری ۱۵ اگست کے دن آزادی کے ترانے گائیں گے۔ وہ خوشی مناتے ہیں کہ آج ہی کے دن 1947 میں انگریزوں کے تسلّط و اقتدار سے انھیں آزادی ملی تھی۔ ان کا جشنِ آزادی منانا اور خوشی کا اظہار کرنا بجا ہے۔ لیکن انھیں چند لمحے ٹھہر کر سوچنا چاہیے۔ کیا واقعی وہ آزاد انسانوں کی طرح جی رہے ہیں۔
کیا ہندوستان کے تمام شہریوں کو آزادی حاصل ہے خوف سے، بھکمری سے، عزّت و وقار کی پامالی سے؟کیا انھیں تحفّظ حاصل ہے اپنی جانوں کا، اپنے مالوں کا، اپنی عزّت و آبرو کا ؟ کیا یہاں کے ہر شخص کو یقین ہے کہ اس پر کوئی ظلم نہیں کر سکے گا اور اگر کرے گا تو وہ قانون کے شکنجے میں آئے گا اور اپنے ظلم کی سزا پائے گا؟
کیا اسے یقین ہے کہ ملک کی شہری سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں اسے دیگر شہریوں کی طرح برابری کا حق حاصل ہے؟ اور اس کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ روا نہیں رکھا جائے گا؟ اگر نہیں تو کیسی آزادی؟ اور کیسا آزادی کا جشن؟ اگر کسی ملک کے باشندے خوف اور دہشت کی فضا میں جی رہے ہوں اور امن و امان سے محروم ہوں تو حقیقت میں وہ آزاد نہیں ہیں۔
اگر کسی ملک کے باشندوں کے ساتھ برابری کا برتاؤ نہ ہوتا ہو، کچھ کو درجۂ اوّل کا شہری سمجھا جاتا ہو اور دوسروں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہو تو حقیقت میں وہ آزاد نہیں ہیں۔
اگر کسی ملک کے شہریوں پر ہمیشہ خطروں اور اندیشوں کی تلوار لٹکتی رہتی ہو اور وطن سے ان کی محبّت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہو تو حقیقت میں وہ آزاد نہیں ہیں۔
جشنِ آزادی مبارک۔
اس پر خوشی و مسرّت کے شادیانے بجانا بھی درست۔ لیکن ہمیں حقیقی آزادی کے حصول کی طرف ضرور پیش قدمی کرنی چاہیے کہ یہی زندہ اور باشعور قوموں کا وطیرہ ہے۔