جنگ آزادی میں علماء کرام کا کردار
حالات حاضرہ

جنگ آزادی میں علماء کرام کا کردار

مسلمانوں بالخصوص علمائےکرام نے 200 سال تک انگریزوں سے نبرد آزما ہو کر بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں، جس کے نتیجے میں ملک کو انگریزوں کے چنگل اور ناپاک قبضوں سے چھڑا کر غلامی کی زنجیر کو اکھاڑ پھینکا، بالآخر ملک کو آزاد کراکے ہی رہے، جن کا مقصد انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھلانا تھا۔

15اگست 1947ء میں ہندوستان آزاد ہوا، اور 26 جنوری 1950 ءمیں جمہوریہ قانون بنا، یاد رکھیے آزادی ایک لفظ نہیں بلکہ ایک رویّہ ہے، غلامی میں طاقتور انسان کمزور پر پابندی لگاتا ہے، اسکی کچھ تفصیل مندرجہ ذیل ہیں۔

انگریزوں کی ہندوستان آمد:۔
سنہ 1601ء میں پہلی مرتبہ 30.000 پاونڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی، 1612ء میں جہانگیر کے عہد حکومت میں ہندوستان کے شہنشاہوں سے اجازت لیکر سورت کو اقتصادی مرکز بنا لیا، عالمگیر کے عہد تک یہ لوگ صرف تجارت تک ہی محدود رہیں، اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ منتشر ہونےلگا اسی دور میں یہ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا، بہت سے صوبوں نے اپنی خودمختاری کااعلان کردیا۔

جنگ آزادی کا آغاز:۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز 1857 سے ہوا لیکن یہ ایک غلط بات ہے جو جان بوجھ کر عام کی گئی ہے، تاکہ 100برس قبل جس تحریک کا آغاز ہوا، اور جس کے نتیجے میں بنگال میں سراج الدولہ نے 1757ءمیں مجنوں شاہ نے 1776ء میں حیدر علی نے1780ءمیں ان کے بیٹے ٹیپوسلطان نے1767 ءمیں مولوی شریعت اللہ نے1791ءمیں انکے بیٹے دادو میاں نے1812ء میں سید احمد شہید نے 1831 ءمیں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑی ہے، وہ سب تاریخ غبار میں ڈوب جائےگی۔ حالانکہ وہ سب مسلمان انگریزوں کے خلاف لڑتے رہیں، انگریز سارے ملک کے خزانے کو لوٹ کر اپنے ملک لے جاتے رہیں، مسلمان لڑائی لڑتے رہیں، حتّٰی کہ 10 مئی 1857 ءکو تحریک آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا، سراج الدولہ وہ پہلا شخص ہے جس نے انگریزوں کے خطرے کو محسوس کیا، اور ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی کوشش کی، پلاسی کے میدان میں جنگ کی، اگر ان کا وزیر میر جعفر غدّاری نہ کرتا تو انگریز دم دبا کر بھاگ جاتے۔ لیکن1764 ءمیں بہار اور بنگال پر قابض ہو گئے.

حیدر علی اور ٹیپو سلطان کاکردار:۔
مولانا ابوالحسن علیؒ لکھتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے اس خطرے کو محسوس کر کے بالغ نظری اور بلند ہمتی سے کام لیا وہ یہی ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں کی، ٹیپوسلطان حکمراں ہوئے، اور 1783 ءمیں پہلی جنگ کی، انگریزوں کو شکست ہوئی، اسی طرح 1784 ءمیں یہ جنگ ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے،1792ء میں انگریزوں نے انتقام لینے کے لئے جنگ کی، 1792 ءمیں ہی حملہ کیا مگر اپنے وزراء افسران خصوصا میر صادق کی بے وفائی، اور اپنی ہی فوج کی غدّاری کی وجہ سے ٹیپوسلطان ان سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے، لیکن خط و کتابت کے ذریعے ترکی کے سلطان سلیم عثمانی نیز ہند کے راجاؤں کو انگریزوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، اور زندگی بھر انگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہیں، انگریزوں کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا، 4 مئی 1799 ءمیں سرنگاپٹنم کے معرکہ میں شہید ہو کر سرخرو ہوگئے، انہوں نے کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے.

جنگ آزادی میں شاہ ولی اللہ اور شاگردوں کاکردار: ۔

یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے ساتھ دیگر ممالک ایران، افغانستان، سے تعلق رکھنے والے حکمران ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لئے حملہ آور ہوئے، 1738ءمیں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ و برباد کر دیا1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو یرغمال بنائے رکھا، دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکرائی، ابھی پوری طرح دہلی کا اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ نے 1762 ءمیں مستقبل کا ادراک کر لیا، اور دہلی پر قبضہ سے 50برس قبل اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا، آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے، لیکن آپ ڈٹے رہے، تحریر و تقریر میں اپنا نظریہ پیش کیا، اور فرمایا کہ ظلم و بربریت انسان کے لیے کینسر کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو ختم کیا جائے، افسوس کے شاہ صاحب 1765 ءمیں وفات پاگئے، اور ان کا خواب تشنئہ تعبیر رہ گیا، تاہم اپنی کتابوں فکروں کی ذریعے نصب العین متعین کر چکے تھے، لہٰذا ان کے چھوڑے ہوئے کام کو پورا کرنے کے لئے شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ نے حوصلہ دکھایا، حالانکہ وہ 17 سال کے تھے، اس میں ان کے تینوں بھائی شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالغنی صاحب ان کے علاوہ عبدالحی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، مفتی الہی بخش کاندھلوی نے ان کا ساتھ دیا،1803 ء میں لارڈلیک نے شاہ عالم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، اور دہلی پر قابض ہوگیا۔

یہ فارمولہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ لوگ عوام بادشاہت حکومت کے خاتمے سے بددلی مایوسی کے شکار ہوجائیں، مگر شاہ عبدالعزیز صاحب اس کو محسوس کر رہے تھے، لہٰذا جرات مندانہ فتویٰ جاری کردیا۔

بالاکوٹ: ۔ اس فتوے کا نتیجہ تھا کہ آپ کی تحریک کے سپاہی سید احمد شہید نے گوالیار کے مہاراجہ کو لکھا کہ یہ بیانگان بعید الوطن و تاجران متاع فروش بادشاہ بنے بیٹھے ہیں، واقعی عار کی بات تھی، لہٰذا مہاراجہ نے کہا کہ ہمیں جنگ پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے پیرومرشد شاہ ولی اللہ کے حکم پر امیر علی خان سنبھلی کے پاس بھی تشریف لے گئے، جو اس وقت راوہلکر کے ساتھ مل کرانگریزی فوجوں پر شب خوں ماررہا تھا، 1815 ءتک یہ اشتراک کامیابی کے ساتھ جاری رہی، لیکن انگریز نے امیر علی خان کو خواب کا خط دے کر ہتھیار رکھنے پر مجبور کردیا، حضرت سید احمد شہید واپس دہلی واپس ہوگئے 1818 ءتک تمام چھوٹے بڑے علاقے اور ریاستی انگریزوں کے زیر اقتدار آ گئی، شاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنے پیرانہ سالی میں ایک نیا لائحہ عمل تیار کیا، دو کمیٹیاں بنائی، جس میں سے ایک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھا، اس میں شاہ محمد اسحاق، شاہ محمد یعقوب صاحب دہلوی، مفتی رشید الدین دہلوی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا حسن علی لکھنوی، مولانا حسین احمد ملیح آبادی، مولانا شاہ عبدالغنی صاحب جیسے لوگ شامل تھے۔

یہ سلسلہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے طے کردہ خطوط کے مطابق چلا کر منبر و محراب کی زینت بنے، دوسری کمیٹی کی قیادت حضرت سید احمد شہید کے سپرد کی گئی، شاہ اسماعیل شہید کو مولاناعبدالحی کو انکا خصوصی مشیر مقرر کیا گیا، جن کا کام یہ تھا کہ ملک بھر میں گھوم کر عوام کے دلوں میں ملک کی حفاظت کاجذبہ پیدا کریں، مال فراہم کریں، 1824 ءمیں حضرت شاہ احمد شہید نے پورے طور پر خود کو جہاد کے لیے وقف کردیا، 11ستمبر 1826 ءمیں فوجی کارروائی شروع کرکے اس کا آغاز کیا، کئی جنگیں باضابطہ لڑی گئیں 10جنوری 1827ءکو ایک عارضی حکومت بھی قائم ہوئی، بے شمارجنگوں کے بعد 1831 ءمیں بالآخر ان کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی، شاہ اسماعیل شہید اور دیگر بے شمار ساتھیوں نے بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا۔

ان ہی کی کوششوں سے 1857 ءمیں انقلاب کی تحریک دوبارہ چلی، اور تحریک آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا، انگریزوں نے اسی وہابی تحریک کا نام دیا تھا،1848 ءمیں اسی تحریک سے وابستہ لوگوں نے انگریزوں سے بےشمار جنگ لڑی، بہت سے لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، کچھ لوگ گرفتار ہوئے، 1857 ءمیں شاملی، ضلع مظفرنگر، کے میدان میں علمائے دیوبند نے انگریزوں سے باقاعدہ جنگیں کی، جس کے امیر حاجی امداداللہ مہاجر مکی مقرر ہوئے، اس کی قیادت مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا قاسم صاحب نانوتوی، مولانا منیر صاحب نانوتوی، کر رہے تھے، اس جنگ میں حافظ ضامن صاحب شہید ہوئے، مولانا قاسم صاحب کو انگریزوں کی گولی لگی، جس سے وہ زخمی ہو گئے، انگریزی حکومت سے وارنٹ نافذ ہوا، لیکن گرفتار نہ ہو سکے، چنانچہ مولانا رشیداحمدگنگوی کو گرفتار کر لیا گیا، اور سہارنپور کے قید خانے میں رکھ دیا گیا، چھ ماہ تک آپ قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، اس میں بظاہر شکست نظر آرہی تھی، لیکن 1857 ءمیں فتح ہوئی، اور انگریزوں نے حملہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ: ہم ایک ایسا تعلیمی نظام وضع کر جائیں گے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان کا جسم تو کالا ہوگا مگر دماغ گورا( انگریزوں جیسا )ہوگا،1857 ءمیں علماءنے باقاعدہ حصہ لیا، اس سے 14 برس قبل دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا، جس میں ساڑھے گیارہ ہزار علماء تھے۔

1884 ءمیں کانگریس کا قیام اور اس میں مسلمانوں کا حصہ:۔
1884ءمیں پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں ممتاز اہل علم حاضر تھے، اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، بدرالدین طیب جی، او رحمت اللہ تھے، اس کا قیام 1885 ءمیں ہوا، کانگریس کا چوتھا اجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا، جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔

سنہ 1912 ءمیں تحریک ریشمی رومال کی ابتدا ہوئی، جس کے بانی فرزند اول دارالعلوم دیوبند شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی تھے، مولانا عبید اللہ سندھی نے اس میں اہم رول ادا کیا، مولانا عبیداللہ سندھی نے کابل سے ریشمی رومال پر جو راز دارانہ خطوط شیخ الہند کو مکہ مکرمہ روانہ کیا، برطانیہ کے لوگوں نے ان خطوط کو پکڑ لیا، یہی شیخ الہند کی گرفتاری کا سبب بنا، اور پورے منصوبے پر پانی پھیر دیا، 1917 ءمیں شیخ الہند ان کے ساتھیوں کو بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلا وطن کیا گیا ، مولاناحسین احمد مدنی، مولانا عزیز گلی پیشاوری، حکیم نصرت حسین، مولانا وحید احمد نے مدتوں اپنے استاذ کے ساتھ مالٹا کی قید کی سختیاں برداشت کی، اور مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا احمد علی لاہوری، حکیم اجمل خان بھی ساتھ تھے، شیخ الہند کے ساتھ ظالموں نے بہت سخت برتاؤ کیا۔

جمیعت علماءکا قیام: ۔
1919 ءمیں جمیعة علماءکا قیام وجود میں آیا، جس کا بنیادی مقصد وطن کی آزادی تھا، 29 جولائی 1920 ءکو ترک موالات کا فتویٰ شائع کیا گیا شیخ الہند کی رہائی کے بعد، جس کے صدر مولانا کفایت اللہ صاحب کی وفات کے بعد 1940ءسے تادم آخر مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ رہے، آپ دارالعلوم کے شیخ الحدیث تھے۔

ہندو مسلم اتحاد:۔
1919 ء میں جلیاں والا باغ سانحہ ہوا، جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے، ان ہی ایام میں تحریک خلافت وجود میں آئی، جس کے بانی مولانا محمد علی جوہر تھے، اسی تحریک سے ہندو مسلم اتحاد وجود میں آیا، گاندھی جی، علی برادران، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، اور مسلم رہنماؤں نے ساتھ ملک کر ملک کی گیر دورہ کیا، 1920ءمیں گاندھی جی، اور مولانا ابولکلام آزاد نے غیرملکی مال کا بائیکاٹ، اور نان کو آپریشن یعنی ترک موالات کی تجویز پیش کی، یہ بہت کارگر ہتھیار تھا، 1920ءمیں موپلا بغاوت اور1922 ء میں پولیس فائرنگ 1930 ءمیں تحریک سول نافرمانی نمک اندولن، 1942 ءمیں ہندوستان چھوڑو تحریک چلی، 1946 میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔

مسلمان جو ایک طویل عرصے تک آزادی کی جدوجہد میں شامل تھے، ان کو فراموش کیا جا رہا ہے، بہرحال 15 اگست1947 ءکو یہ ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا. اور جمھوریت کا نفاذ ہوا.

جمہوریت کے معنی یہ ہے کہ لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار ۔ 20 جنوری 1950ءمیں قانون آئین کا نفاذ ہوا اس کا اعلان کیا گیا، آج 70سال بیت گئے اسی کی خوشی منائی جاتی ہے۔

آئین کا ‘خلاصہ یہ ہے کہ سات بنیادی حقوق دیے گئے۔
1) مساوات کا حق۔
2) حقِ آزادی۔
3) استحصال سے حفاظت کا حق۔
4)مذہبی آزادی کا حق
5) تعلیمی اور ثقافتی حقوق
6) جائیداد کے حقوق
7) دستوری معاملات میں محافظت

لیکن افسوس صد افسوس!!! آج ان سارے آئین و قوانین کا جنازہ نکل چکا ہے، مسلمانوں کے شریعت پر چلنے کے اختیار کو چھین کر ان کو ختم کرنے کی صرف سازش ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ثبوت بھی پیش کیا جا رہا ہے،

ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اس کو آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کی اقلیت اور کفر کفاروں کی کثرت تھی مکہ میں تو مکی زندگی میں تین کاموں کو بنیاد بنایا جو کامیابی کا سبب بنا
1) وحدت 2) دعوت 3 )خدمت۔
ہندوستانی مسلمان اگر ان تینوں باتوں پر عمل کر لے تو ساری مشکلات و مصائب دور ہو جائیں گے، ان شاءاللہ ۔

علامہ اقبالؒ نے کیاخوب کہا ہے:

جلا ڈالیں تھی تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر
مسلمان پھر تیری تاریخ دہرانے کا وقت آیا
چلے تھے تین سو تیرہ جہاں سے تم مسلمانوں
انہیں ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا