نئی دہلی: ”ہندوستان ایک کثیر جہتی و متنوع ثقافتی ملک ہے جہاں مختلف رسم و رواج اور عقائد پائے جاتے ہیں۔ انہیں ’یکساں سول کوڈ‘ (یو سی سی) نافذ کرکے ختم کرنا نہ صرف ناپسندیدہ عمل ہوگا بلکہ معاشرے کے تانے بانے اور ہم آہنگی کی بقاء کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ملک کی ایک بڑی تنظیم ہونے کے ناطے جماعت اسلامی ہند ،لاء کمیشن آف انڈیا سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ’یکساں سول کوڈ‘ کے تعلق سے اپنے سابقہ موقف کو برقرار رکھے اور حکومت ہند سے سفارش کرے کہ وہ عائلی و شخصی قوانین میں مداخلت کرنے کی کوششوں سے باز رہے۔ کیونکہ یہ مداخلت ملک کی’کثرت میں وحدت‘ کے تصور کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔
‘ یکساں سول کوڈ‘ پولرائزیشن کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کرے گا۔ نیز مشاورت اور تجاویز کے لئے جو وقت مقرر کیا گیا ہے، یہ مزید خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں لاء کمیشن کی طرف سے 14 جون 2023کے عوامی نوٹس کے جواب میں جماعت اسلامی ہند نے اپنا نقطہ نظر پیش کردیا ہے۔
اس سے پہلے 21 ویں لاء کمیشن نے 2016 اور 2018 کے درمیان اپنی تجاویز میں یہ سفارش کی تھی کہ ’یو سی سی‘ ہندوستان کے تنوع اور تکثیریت کے تناظر میں نہ ہی ضروری ہے اور نہ ہی مطلوبہ، اس کے باوجودحالیہ لاء کمیشن کا لایا جانا حیران کن ہے جبکہ پہلی نظر میں اس ’یو سی سی‘ کا مفہوم مبہم اور اس کے معنی غیر واضح ہیں۔ اس میں کئی ایسے ابہام ہیں جو اسے پیچیدہ بنارہے ہیں جس کی وجہ سے منصفانہ و جامع رائے فراہم کرنا تقریبا ًناممکن ہے۔
اس کے علاوہ قانون میں یکسانیت کا یہ نظریہ ہندوستان کے کثیر سماجی و ثقافتی ورثے کی آئینی روح سے بھی متصادم ہے۔ لہٰذا آرٹیکل 44 میں موجود ہدایتی اصول کو نافذ کرنے کا کوئی بھی طریقہ، اگر یہ آرٹیکل 25 یا آرٹیکل 29 کے تحت شہریوں کو دیئے گئے حقوق سے متصادم ہے تو یہ طریقہ آئین کے خلاف ہوگا۔
جہاں تک مسلم پرسنل لاء کا سوال ہے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملات میں اسلامی قانون کی پابندی کرنا مسلمانوں کا ایک مذہبی و دینی فریضہ ہے جس کے تحفظ کی ضمانت آرٹیکل 25 میں دی گئی ہے۔
ایسی صورت میں ’یکساں سول کوڈ‘ کا نفاذ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے ماحول کے لئے خطرہ بن سکتا ہے“۔ یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہی گئ ہیں۔
*جاری کردہ : شعبہ میڈیا ، جماعت اسلامی ہند*