کرناٹک میں مسلمانوں کی صورت حال
حالات حاضرہ

اعلی تعلیم کے لئے شعور بیداری کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی بھی ضرورت

تعلیم ہی کسی فرد کی کامیابی کی ضامن ہے۔ لہذا مسلمانوں کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مسلم نوجوانوں میں معلومات بھی فراہم کریں اور ضرورت پڑنے پر ان کی مالی مدد بھی کریں، اگر ایسا ہو جائے تو اس کے نتائج سب کے سامنے ہوں گے۔

ممبئی: ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلز (اے ایم پی) نے اعلی تعلیم کے چیلنجز پر "مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں صورتحال ” پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا۔ اس میں 130 سے زیادہ اے ایم پی ممبران، پروفیشنلز، ماہرین تعلیم، سماجی رہنماؤں وغیرہ نے شرکت کی۔ آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE 2020-21)، وزارتِ تعلیم کے ایک جائزے کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی تمام پسماندہ طبقات بشمول شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب سے بھی کم ہے۔

تشویش کا موضوع سمجھتے ہوئے اے ایم پی نے یہ طے کیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی کمی کے چیلنجیز اور آئندہ پچیس برسوں میں اعلیٰ تعلیم میں اندراج میں اضافے کا ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے برین اسٹارمنگ سیشن کا سلسلہ وار آغاز کیا جائے۔

ویبینار میں پروفیسر فرقان قمر(پروفیسر آف منیجمنٹ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے کہا کہ 2001ء سے اعلیٰ تعلیم میں کل اندراج میں مسلمانوں کی شرح 18 فیصد تھی، مختلف سماجی و سیاسی وجوہات کی بناء یہ شرح 5 فیصد ہوگئی ہے جو تشویش کا پہلو ہے اور یہ چند حقیقی اور دوسری مفروضہ رکاوٹوں کے سبب ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ قومی اہمیت کے حامل اداروں میں اندراج مزید کم ہو کر 2 فیصد رہ گیا ہے۔ تاہم، سروے کا مثبت پہلو مسلم لڑکیوں کا اندراج تھا جو کہ کل مسلم انرولمنٹ کا 56 فیصد تھا۔ یہ اس عام تاثر کے خلاف تھا کہ مسلم کمیونٹی میں لڑکیاں تعلیم یافتہ نہیں ہیں یا تعلیم حاصل نہیں کررہی ہیں۔

اے ایم پی کے صدر، محترم عامر ادریسی نے کہا کہ "اے ایم پی اعلیٰ تعلیم میں مسلم نمائندگی میں اضافے کے لیے سنجیدگی سے غور کررہی ہے اور ساتھ ہی مالی مدد کی فراہمی کو یقینی اور آسان بنانے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ یہ تلخ حقیت ہے کہ مسلمانوں کی تقریباً 35فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے (بی پی ایل) زندگی گزار رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے باشعور افراد کو 100 اقلیتی اضلاع میں جانے اور مقامی آبادی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم سے متعلق اجلاس کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سے تجاویز اور حل طلب کیے جائیں، جن کی بنیاد پر ہائر ایجوکیشن میں کمیونٹی کی شرکت بڑھانے کے لیے اگلے 25 سالوں کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا جائے۔

وجاہت حبیب اللہ، ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر اور سابق چیئرپرسن، قومی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ یہ تعلیم ہی ہے جو کسی فرد کی کامیابی کی ضامن ہے۔ لہذا مسلمانوں کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے عوام کو معلومات بھی فراہم کریں اور ضرورت پڑنے پر ان کی مالی مدد بھی کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس کے نتائج سب کے سامنے ہوں گے۔