نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قال اللہ تعالیٰ ان الدین عند اللہ الاسلام صدق اللہ العظیم
ہندوستان میں جس وقت انگریزوں کے خلاف جدو جہد جاری تھی اور ہندوستان کے تمام شہری اس بدیشی دشمن کے خلاف سیسہ کی دیوار بنے ہوئے تھے ، اس وقت فکر و نظر ، تہذیب ، قومی مفادات ، زبان ، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی ، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرزم کی راہ پر چلے گا، ہر مذہب ، ہر تہذیب اور ہر جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی انفرادی زندگی میں آزادی حاصل ہوگی ، مسلمان جو مذہبی اعتبار سے زیادہ باحمیت واقع ہوئے ہیں ، ممکن نہ تھا کہ وہ اس تیقن کے بغیر اس لڑائی میں شریک ہوتے ، آزادی سے پہلے ہمیشہ ’ قومی لیڈران ‘ مسلم پرسنل لا کے تحفظ اور اس میں عدم مداخلت کا یقین دلاتے رہے ، مہاتما گاندھی جی نے خود بھی گول میز کانفرنس لندن ۱۹۳۱ء میں پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کہا تھا: ’’مسلم پرسنل لا کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا ‘‘ ۔۔۔
جنگ آزادی کے سالار مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے فرمایا : نہ تو کانگریس ہی کا یہ مقصد ہے اور نہ مسلمان ہی اس مقصد سے قیامت تک متفق ہوسکتے ہیں کہ ہندوستان سے مسلم کلچر ، مسلم تہذیب اور مسلم خصائص ختم ہوجائیں اور وہ ہندستان کی متحدہ قومیت میں جذب ہوکر جرمن یا انگریز قوم کی طرح ہندوستانی قوم کے سوا کچھ نہ رہیں۔ ۱۹۳۸ء میں ہری پور میں کانگریس نے اعلان کیا : ’’ اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ‘‘ پھر ۱۹۳۷ء میں ’’ شریعت اپلی کیشن ایکٹ ‘‘ پاس ہوا ، جس نے زیادہ صراحت کے ساتھ مسلم پرسنل لا کو آئین کا حصہ بنا دیا۔
پھر آزادی حاصل ہونے کے بعد جب ہندوستان کا دستور بنا ، تو قانون کے سب سے اہم حصہ ’ بنیادی حقوق ‘ کی فہرست میں ایسی دفعات بھی رکھی گئیں ، جن سے ’’ مسلم پرسنل لا ‘‘ کی حفاظت ہوتی ہے ، دستور ہند کی آرٹیکل ۲۵ میں مذہبی قوانین کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ’یونیفارم سول کوڈ ‘ مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ، دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں۔
تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ؛ لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ؛ اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، ہمارے سامنے ناگاؤں اور میزؤوں کی واضح مثال موجود ہے کہ انھوں نے اس کے بغیر عَلَم بغاوت کو نہیں جھکایا کہ ان کو کچھ خصوصی رعایتیں دی جائیں ، جن میں ان کے لئے اپنے قبائلی قانون پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا ۔
مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے۔
خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلیوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟
جو لوگ یکساں سول کوڈ کے وکیل ہیں، وہ بنیادی طورپر دو باتیں کہتے ہیں: ایک یہ کہ اس سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، دوسرے : جب یورپ میں تمام قوموں کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں ہوسکتا ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں، قانون سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہوتی، قومی یکجہتی، رواداری، تحمل اور ایک دوسرے کے معاملہ میں عدم مداخلت سے پیدا ہوتی ہے، دنیا کی دونوں جنگ عظیم بنیادی طورپر ایسی دو قوموں کے درمیان ہوئی ہے ، جن کا مذہب ایک تھا، جن کی تہذیب ایک تھی، جن کا قانون اور طرز زندگی ایک تھا، یہ ساری وحدتیں جنگ کو روکنے اور قومی وحدت پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔
خود مسلم ممالک میں دیکھئے کہ عراق و ایران ، شام و افغانستان کے مختلف گروہوں کے درمیان اس کے باوجود جنگیں ہورہی ہیں کہ وہ بنیادی طورپر ایک ہی مذہب اور ایک ہی قانون کی حامل ہیں، ہندوستان ہی کو دیکھئے کہ یہاں مختلف راجاؤں کے درمیان جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے ، یہ سب ایک ہی طریقہ زندگی پر چلنے والے لوگ تھے؛ لیکن یہ وحدت ان کو جوڑ نہیں پائی اور آج بھی فرقہ وارانہ فسادات اس لئے نہیں ہوتے کہ مسلمانوں کا معاشرتی قانون الگ ہے اور ہندوؤں کے خاندانی رسوم و رواجات الگ ہیں؛ بلکہ اس کے برعکس مذہبی قانون سے ہٹ کر جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دام محبت میں گرفتار ہوکر بین مذہبی شادی رچاتے ہیں تو اس سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوتا ہے اور قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے ؛ اس لئے یہ سوچنا قطعاً غلط ہے کہ قانون کی وحدت کی وجہ سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی، ویسے بھی عائلی زندگی کے علاوہ تمام قوانین میں پہلے سے یکسانیت موجود ہے ؛ لیکن کیا یہ یکسانیت قومی اتحاد کو برقرار رکھنے میں کافی ثابت ہورہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اس بات سے پیدا ہوگی کہ ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کا موقع دیا جائے ، اس سے ہرگروہ میں اطمینان ہوگا ، وہ محسوس کریں گے کہ وہ اس ملک میں برابر کے شہری ہیں ، اس سے حب الوطنی میں اضافہ ہوگا ، احساس محرومی ختم ہوگا ، بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوگا اور یہی قومی یکجہتی ہے ، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر چیز میں یکسانیت اور وحدت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔
اگر آپ قانون ایک کر بھی دیں تو ملک میں جو مختلف تہذیبی اور ثقافتی گروہ ہیں ، جن کے لباس و پوشاک ، رہن سہن ، خوشی وغم کے اظہار کے طریقے ، زندگی گزارنے کے انداز ، سماجی رسوم ورواجات الگ الگ ہیں اور اس کی جڑیں ان کے مذہب ، موسم ، جغرافیائی محل وقوع ، خاندانی روایات اور نسلی خصوصیات میں پیوست ہیں ، کیا ان کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ؟ پھر یہ بات قابل غور ہے کہ مذہب ، تہذیب اور زبان کا یہ تنوع کوئی عیب ہے یا یہ اس ملک کا حسن ہے ؟ گلاب کا ایک پھول بھلا لگتا ہے یا مختلف پھولوں کا گلدستہ ؟ پھول کا ایک پودا خوبصورت نظر آتا ہے ، یا طرح طرح کے پودوں پر مشتمل پھلواری ؟
ظاہر ہے کہ جو خوبصورتی اس تنوع میں ہے ، وہ خوبصورتی اس وحدت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جس کے پیچھے جبر اور دباؤ کا دخل ہو ، ہندوستان کو اس کے معماروں نے گلدستہ بنایا ہے نہ کہ ایک پھول ، اس ملک کے سینچنے والوں نے اس کو نوع بہ نوع درختوں کا ایک باغ سدا بہار بنایا ہے نہ کہ صرف ایک ہی طرح کے درختوں کا باغیچہ ، اس کے بنانے والوں کے ذہن میں تھا کہ یہ ملک ایک چراغ ہمہ رنگ ہو ، یہی ہمہ رنگی اس کا حسن اور یہی تنوع اس کی پہچان ہے ۔
یورپ کی جو مثال ہندوستان کے لئے پیش کی جاتی ہے ، وہ بالکل بے محل ہے ، ہندوستان اتنا وسیع ملک ہے کہ پورا یورپ اس کے ایک حصہ میں سما جائے ، اور ہندوستان کی آبادی اتنی کثیر ہے کہ شاید پورا یورپ مل کر بھی اس کی ہمسری نہ کرسکے؛ اگر اس معاملہ میں ہم کو دوسرے ملک کو مثال بنانا ہی ہے تو امریکہ کو بنانا چاہئے، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہندوستان ہی کی طرح ایک ملٹی کلچر معاشرہ ہے، یہاں پر ریاست میں الگ الگ پرسنل لاء نافذ ہے، یہاں تک اگر ایک ایسی ریاست کا شہری دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے جہاں دوسری شادی کی اجازت نہیں تو وہ دوسری ایسی ریاست میں جاکر دوسری شادی کرتا ہے جہاں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ اس لئے ہندوستان جیسے ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی اسی بات میں مضمر ہے کہ اس میں تنوع کو برقرار رکھا جائے اور ایسی وحدت پر زور نہ دیا جائے ، جو اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے ۔
یکساں سول کوڈ کے حق میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں مذہبی قوانین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے یہ بھی محض غلط فہمی ہے ، سیکولرازم کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں ہے ؛ بلکہ مختلف ملکوں میں وہاں کے حالات اور مصالح کے لحاظ سے اس کامفہوم متعین کیا گیا ہے ، سیکولرازم کا ایک مفہوم وہ ہے ، جو فرانس نے اختیار کیا ہے ، جس کی بنیاد مذہب کی مخالفت پر ہے ، جو چاہتا ہے کہ کوئی مذہبی شناخت باقی نہ رہے تو بہتر ہے ، جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مذہبی ہدایات پر عمل کرے۔
سیکولرازم کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو ، سرکاری طورپر کسی خاص مذہب کی پشت پناہی نہ ہو ؛ لیکن ملک کے ہر شہری کو اپنی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش ہو ، بیشتر مغربی ممالک میں اسی مفہوم کے اعتبار سے سیکولرازم کو اختیار کیا گیا ہےاور ہندوستان میں بھی اسی کو برتا گیا ہے ، نیز اسی کے مطابق دستور کی تدوین عمل میں آئی ہے ؛ اس لئے یہ بات بالکل بے محل ہے کہ چوں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ؛ اس لئے یہاں عائلی زندگی سے متعلق مذہبی قوانین کی گنجائش نہیں ۔
یہ بات بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے یونیفارم سول کوڈ کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے، جو بنیادی طور پر برہمنی فکر کی نمائندہ ہے ، ہندوستان میں ’ منوواد ‘ کو واپس لانا چاہتی ہے ، یہ اپنے آپ کو ہندوؤں کے حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے ، اگر اس نے ایسے مسائل کو اپنی فہرست میں رکھا ہے ، جن میں ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کے مفادات میں ٹکراؤ ہو ، یا جن کا مقصد ہندوؤں کی بالا دستی قائم رکھنا ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے ؛ لیکن مسلم پرسنل لا کا مسئلہ مسلمانوں کا آپسی مسئلہ ہے ، اگر اس پر مسلمان عمل کریں تو اس سے ہندوؤں کو نہ فائدہ ہے نہ نقصان ؛ بلکہ ایک طرح سے فائدہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت مسلمان اور ہندو کے درمیان رشتہ نکاح قائم نہیں ہوسکتا ، اس طرح وہ بات پیش نہیں آئے گی ، جس سے یہ حضرات خوفزدہ ہیں اور جس کو غلط طریقہ سے انھوں نے ’’ لَوْجہاد ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے سوا اس کا کوئی اور محرک نہیں ہوسکتا۔ افسوس تو انگلی پر گنے جانے والے ان چند نام نہاد مسلمانوں پر ہے ، جو فرقہ پرست اور اسلام دشمن عناصر کا آلۂ کار بن کر مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ،کیا کہا جائے کہ اس وقت ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے ، انسان اپنی ضروریاتِ زندگی خریدنے سے عاجز ہوتا جارہا ہے؛ لیکن ایک چیز ہے جو سستی ہوتی جارہی ہے، سستی سے سستی اور ارزاں سے ارزاں تر، اور وہ ہے کچھ لوگوں کا ضمیر، یہ ضمیر کے سوداگر ہیں اور کوڑیوں میں اپنا مال بیچتے ہیں، ان کے لئے ہدایت ہی کی دُعا کی جاسکتی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی جانب سے مسلمانان ہند کے نام گزشتہ دنوں ایک دردمندانہ اپیل جاری کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ ایک مسلمان نماز، روزہ اور حج وزکوٰۃ کے مسائل میں شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا پابند ہے، اسی طرح معاشرتی مسائل —نکاح وطلاق، خلع، عدت، میراث، ولایت وحضانت وغیرہ— میں بھی شریعت کے حکم پر قائم رہنا ہر مسلمان پر واجب ہے، ان امور سے متعلق بیشتر احکام براہ راست قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہیں؛ اس لئے ان احکام کو دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
حکومت کے سامنے یونیفارم سول کوڈ کا جو مجوزہ خاکہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت سے امور میں شریعت کے عائلی قانون سے متصادم ہوگا؛ اس لئے مسلمانوں کے لئے دینی نقطۂ نظر سے یہ قطعاََ ناقابل قبول ہے، اس کے علاوہ یہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ ہندوستان مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں کا ایک گلدستہ ہے، اور یہی تنوع اس کی خوبصورتی ہے، اگر اس تنوع کو ختم کیا گیا اور ان پر ایک ہی قانون مسلط کر دیا گیا تو اندیشہ ہے کہ اس سے قومی یکجہتی متأثر ہوگی، یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ حکومت نے مختلف علیحدگی پسند قبائل کو اسی وعدہ پر قومی دھارے میں شامل کیا ہے کہ اُن کے رواجی قانون کو متأثر نہیں کیا جائے گا، یونیفارم سول کوڈ سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی؛ اس لئے پرسنل لا کے سلسلہ میں مختلف گروہوں کے نقطۂ نظر کی رعایت کرنا ضروری ہے اور یہی دستور کی روح ہے۔
لا کمیشن آف انڈیا نے کچھ سالوں پہلے یونیفارم سول کوڈ کے لئے ایک سوالنامہ جاری کیا تھا، بورڈ نے اس کا تفصیلی جواب بھی داخل کیا اور بورڈ کے وفد نے کمیشن کے چیئرمین سے ملاقات کر کے بالمشافہ بھی اپنا نقطۂ نظر رکھا اور انھوں نے ایک حد تک بورڈ کے موقف کی تحسین بھی کی، اب دوبارہ مؤرخہ: 14؍ جون 2023ء کو لا کمیشن آف انڈیا نے اپنی ویب سائٹ پر اس سے متعلق سوالنامہ جاری کیا ہےاور جماعتوں اور افراد سے خواہش کی ہے کہ وہ اس کے بارے میں ایک ماہ کے اندر یعنی 14؍ جولائی 2023ء تک اپنا نقطۂ نظر داخل کریں، اس پس منظر میں بورڈ ماہر وکلاء اور قانون دانوں کے مشورے سے ایک مختصر اور جامع ڈرافٹ بنیادی جواب کے لئے تیار کر رہا ہے، اسی کے مطابق مختلف افراد اور تنظیموں کی طرف سے جواب دینا مناسب ہوگا، اس کے علاوہ ایک تفصیلی ڈرافٹ (جس میں مجوزہ قانون کے تمام پہلوؤں کی وضاحت ہوگی) کو بعد میں لا کمیشن کے سپرد کیا جائے گا۔
بورڈ ہمیشہ سے اس مسئلہ میں چوکس اور باخبر رہا ہے، یونیفارم سول کوڈ کے لئے اس کی مستقل کمیٹی ہے، اس نے ماہر وکلاء کا ایک پینل تشکیل دیا ہے، مختلف غیر مسلم اقلیتی نمائندوں ، اپوزیشن لیڈروں اور دلتوں سے ملاقات کر کے اس مسئلہ میں بورڈ کے نقطۂ نظر کی تائید وحمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور الحمدللہ اس میں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔
اس پس منظر میں تمام مسلم تنظیموں سے، مختلف پیشوں سے جڑے ہوئے افراد، جیسے اساتذہ، ڈاکٹرس، وکلاء، سماجی کارکنان، مذہبی رہنماؤں اور خاص طور پر خواتین اور چھوٹی بڑی مذہبی اور ملی تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ بورڈ کی ہدایت آنے کے بعد اس کے مطابق زیادہ سے زیادہ تعداد میں لا کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر جا کر یونیفارم سول کوڈ کے خلاف اپنا اعتراض داخل کریں اور برادران وطن کو بھی اس پر آمادہ کریں اور انہیں سمجھائیں کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ تمام طبقات اس سے متأثر ہوں گے، نیز دعاء کا بھی خوب اہتمام کریں کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کی جو آزادی دستوری طور پر حاصل ہے، وہ برقرار رہے، بورڈ اطمینان دلاتا ہے کہ وہ ہر سطح پر یونیفارم سول کوڈ کو روکنے کی پوری کوشش کرے گا، اس کے لئے تمام پُر امن ممکنہ وسائل کا استعمال کرے گا اور وہ پوری ملت اسلامیہ ہند سے امید رکھتا ہے کہ بورڈ جب بھی اس سلسلہ میں کوئی آواز دے گا، سب کے سب اس پر لبیک کہیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی ومددگار ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین