جذبہ قربانی
اسلامی مضامین

جذبہ قربانی سے پہلو تہی مسلمانوں کی تباہی کا اہم سبب

فیاضی (انفاق فی سبیل اللہ )کی انتہاء بنی آدم کے کردار میں قربانی کے جذبہ کو پیدا کرتی ہے اور قربانی کا یہی جذبہ آدمی کو انسانیت کا علمبردار بنادیتا ہے۔ قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر فیاضی کی اہمیت و افادیت ، فضائل و برکات بیان فرمائے ہیں۔ خرچ کرنے کے لیے قرآن حکیم میں (6) الفاظ مستعمل ہوئے ہیں ۔ یعنی (1) بخل (جائز مقامات پر کم خرچ کرنا ) (2) اقتر (اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ میں بقدر کفایت خرچ نہ کرنا) (3) اسرف (اسراف سے کام لینا، ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا) (4) بذّر (بے دریغ خرچ کرنا) (5) اھلک (ناجائز کاموں میں زیادہ مال خرچ کرنا) اور (6) انفق جس کے معنی ایک طرف سے مال خرچ ہوتا رہے اور دوسری طرف سے مال آتا رہے۔ عربی میں نفق (Tunnel) اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے دونوں راستے کھلے ہوں۔

مکۃ المکرمہ جانے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ مکۃ المکرمہ (سعودی عرب) میں سرنگیں بکثرت پائی جاتی ہیں جس کو اسی بنا پر نفق کہا جاتا ہے کہ اس کے دونوں راستے کھلے ہوتے ہیں۔ لفظ نفاق بھی اسی سے بنا ہے۔ اصطلاح شریعت میں نفاق اس طریقے کو کہتے ہیں کہ انسان ایک راستہ سے اسلام میں داخل ہو اور دوسرے راستہ سے اس سے نکل جائے (مفردات ،امام راغب اصفہانی)خدا کی راہ میں جو مال خرچ کرنے حکم دیا گیا ہے اس کو قرآن حکیم نے انفق سے تعبیر فرمایا ہے گویا قرآن اپنے ماننے والوں کے ذہن میں یہ تصور پیدا کرنا چاہتا ہے فیاضی سے مال میں کمی نہیں بلکہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے یقینا اس میں بڑھوتری اور برکت ہوتی ہے یعنی دوسری طرف سے اللہ فیاض لوگوں کو نوازتا ہے۔جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

فیاضی کی صفت انسان کے ایمان کو بام عروج پر پہنچاتی ہے،فیاضی حصول رضائے الہی کا ذریعہ ہے، فیاضی ذات اقدس ﷺ سے والہانہ وابستگی کا اظہار ہے، فیاضی انبیاء و مرسلین کی سنت کریمہ ہے، فیاضی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی پاک باز زندگیوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنانے کی ایک دلیل ہے، فیاضی تابعین کی حیات کا تابناک پہلو ہے ، فیاضی تبع تابعین کی سیرت کا اہم جز ہے، فیاضی اولیاء کرام و صالحین کا طرہ امتیاز ہے، فیاضی مومنانہ صفات میں سرفہرست ہے۔

فیاضی محتاجوں ، غمزدوں،مفلسوں ، ناداروں اور یتیموں سے غمخواری کی آئنہ دار ہے، فیاضی انسانیت کی اساس ہے، فیاضی خدا کی قدرت پر کامل ایقان کی علامت ہے، فیاضی دنیا اور دنیوی نعمتوں کو فانی اور موقتی جاننے کے تصور میں ولولہ پیدا کرتی ہے، فیاضی ایمان و یقین کو تقویت و تازگی بخشنے کا ذریعہ ہے، فیاضی انسان کو کنجوسی اور بخل سے بچانے میں ممد و معاون ہے، فیاضی معاشرہ میں خوشحالی لانے کی ضامن ہے، فیاضی انسانیت کے مختلف مسائل کا حل ہے، فیاضی انسانی مساوات پیدا کرنے کا سبب ہے۔

فیاضی غریب و نادار کو اس کے جائز حقوق دلوانے میں مدد کرتی ہے۔ فیاضی ناگہانی آفات و بلائیات سے نمٹنے کا بہترین وسیلہ ہے، فیاضی گداگری اور بھیک مانگنے جیسے ذلیل اور مذموم پیشے کے سد باب کی موجب ہے، فیاضی حسن معاشرت کو عروج عطا کرتی ہے، فیاضی بہترین اخلاق کی غماز ہے اور جب یہی جذبہ فیاضی اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو جذبہ قربانی کی ابتداء ہوتی ہے یعنی جذبہ فیاضی کی جہاں انتہا ہوتی ہے وہیں پر جذبہ قربانی کی ابتداء ہوتی ہے اور جس عہد میں جذبہ قربانی اپنے عروج کو پہنچتا ہے تو وہ زمانہ ’’خیر القرون ‘‘ (یعنی بہترین زمانے) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

مرقع ہر خوبی و زیبائی ﷺ ، آپ کے اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کے ہر عمل میں جذبہ قربانی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ میں پایا جاتا تھا۔ اسی لیے رحمت عالمؐ نے ان ادوار کو ’’خیر القرون‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت طلحہ ؓ کو عراق کی کاشت سے چار پانچ لاکھ اور سرات کی کاشت سے کم و بیش دس ہزار دینار وصول ہوتے تھے آپ وہ رقم ضرورت مندوں پر خرچ کردیا کرتے ، کنواری خواتین ،بیوائوں، مطلقہ عورتوں کے نکاح کا بندوبست فرمایا کرتے ، محتاجوں کی حاجت روائی فرمایا کرتے ، قرضہ کی لعنت میں دبے افراد کو اس لعنت سے چھٹکارا دلواتے۔ (طبقات ابن سعد)

ان ’’خیر القرون‘‘ ادوار کے بعد اس جذبہ قربانی میں بتدریج گراوٹ آتی گئی اور حقیقی جذبہ قربانی کی جگہ رسمی جذبہ قربانی نے لے لی اور آہستہ آہستہ یہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالی نے امامت کے لیے پیدا فرمایا ہے گراوٹ اور پستی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ عمل سے بیگانگی کے باعث آج تو ہم تنزل و انحطاط کے اس نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس کی اسلامی تاریخ کے گذشتہ چودہ صدیوں میں مثال ملنی مشکل ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی نے ڈپارٹمنٹ آف کامرس (عثمانیہ یونیورسٹی و نظام کالج) کے مشترکہ تعاون سے "Enterpreneurship Development Among Minorities ‘Opportunities & Challenges” کے زیر عنوان حیدرآباد میں منعقدہ ایک سمینار میں کہا تھا کہ اقلیتی طلبا عمل سے دوری کے باعث ہی ہر میدان میں پیچھے ہیں۔شہری سطح پر ہو یا ریاستی ،قومی ہو یا بین الاقوامی ہر سطح پر مسلمان آپس میں رسہ کشی اور خودغرضی کا شکار ہوچکے ہیں۔

اہل علم ہوں یا سیاسی قائدین، رفاہی کاموں سے وابستہ مسلمین ہوں یا سماجی کام کرنے والے اراکین تمام لوگ حمیت اسلامی پر سب کچھ قربان کرنے کے بجائے دنیا کی وقتی منفعت حاصل کرنے کے لیے اسلامی اقدار و کردار کو قربان کر رہے ہیں۔ جس کے باعث امت مسلمہ عالمی سطح پر تیزی سے روبہ زوال ہے۔ تعلیمی میدان اور معیاری پیشوں میں صدیوں تک امامت کا ناقابل تسخیر فریضہ انجام دینے والی یہ امت اب تن آسانی کا شکار ہوگئی ہے اور کھیل و تفریح اور لا یعنی کاموں میںاپنا وقت ضائع کرنا اس کا شعار بن گیا ہے۔

حضرت علیؓ جیسے عالم،صوفی، مدبر و مصلح نے اپنا حق رکھتے ہوئے تعلیمات اسلامی کی پاسداری میں اپنے حق کو قربان کرتے ہوئے دستبردار ہوگئے جس کے سبب غیر مسلم نے تائب ہوکر اسلام کو اپنالیا اور ہمارا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہر موقع پر قرآن مبین کی تعلیمات و سرور کائنات کی ہدایات کو قربان کرتے جارہے ہیںجس کے سبب زندگی کے ہر شعبہ میں ہمیں ذلت و خوار نصیب ہورہی ہے جبکہ صحابہ کرامؓ کا طرز عمل ہماری اس روش کے بالکل برعکس تھا۔ صحابہ کرام کی فضیلتوں ، برکتوں، عظمتوںاور رفعتوں کی اساس بیان کرتے ہوئے پیر طریقت حضرت العلامہ ابو القاسم شاہ سید عبدالوہاب حسینی القادری الملتانی ارشاد ؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ اللہ اور اس کے حبیب مرقع ہر خوبی و زیبائی ﷺ کے احکامات پر اپنی تمنائوں اور خواہشوں کو یکلخت قربان کردیتے تھے ۔

چنانچہ حضرت زبیر بن العوامؓجن کا سلسلہ نصب قصی بن کلاب پر سرور کائناتﷺ سے جا ملتا ہے، آپ حضور پرنورﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے چونکہ آپ کی والدہ حضرت صفیہؓ سرور عالمؐ کی پھوپھی تھیں، آپ حضور ختمی المرتبتؐ کے ہم زلف تھے چونکہ آپ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے داماد تھے، آپ ام المومنین حضرت بی بی خدیجہ ؓ کے حقیقی بھتیجے تھے، اس سبب آپ کو رحمۃ اللعالمینؐ سے سسرالی نسبت بھی حاصل تھی، اہل سیر کے مطابق حمایت حبیب خداؐ میں سب سے پہلے آپ ہی نے اپنی تلوار کو برہنہ کیا تھا۔ ان متعدد نسبتیں اور فدویت و جانثاری کا جذبہ رکھنے والے صحابی رسول جنگ جمل میں حضرت سیدنا علی ؓ کی اس یاد دہانی پر کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت تم اس سے ناحق لڑوگے جیسے ہی نبی مکرم ﷺ کا یہ قول ان کو یاد دلایا گیا آپ نے اپنے تمام تر عزائم و ارادوں کو حبیب کردگارﷺ کے اس قول پر قربان کردیا اور جنگ جمل میں آپ نے دستبرداری اختیار کرلی۔

آج ہمارا یہ عالم ہے کہ اگر ہم حق پر نہ بھی ہوں تو صرف اس لیے باطل پر ڈٹ جاتے ہیں کہ کہیں ہماری انا کو ٹھیس نہ پہنچ جائے یا ہماری دنیوی ساکھ کہیں متاثر نہ ہوجائے اور ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ ہم کسی بھی وقت داعی اجل کو لبیک کہہ سکتے ہیں جہاں ہمارے کام صرف ہمارے اعمال آنے والے ہیں اور کوئی نہیں۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں جذبہ قربانی اپنے عروج پر تھا جس کے باعث مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود کئی ایک ممالک فتح کئے جب کہ ہمارے زمانے میں کسی ایک چھوٹے مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حکومت یا ارباب اقتدار سے منوانے کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے اس کے باوجود بھی کئی ایک مسائل جوں کے توں باقی رہ جاتے ہیں۔

ہمارے کسی قول میں دم ہے اور نہ ہی عمل میں بھرم ۔ اللہ تعالی نے کسی کو مال دیا ہے تو کسی کو ذہن ،کسی کو حسن دیا ہے تو کسی کو کردار ،کسی کو فن کاری دی ہے تو کسی کو فکر و نظر کی گہرائی، اور حضور اکرمﷺ نے ہمارے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ قائم فرمایا تاکہ ہم خدا کی تمام تر نعمتوں سے بطریق تعاون استعمال کرسکیں۔ لیکن صد افسوس ہم ہر چیز کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا نہیں۔

ہمارے معاشرے میں کئی ایک ایسے ذہین طلباء ہیں جن کو اللہ تعالی نے خداداد اختراعی صلاحیتوں سے نوازا ہے اگر وہ تعلیم مکمل کرلیں تو قوم و ملت کا بہترین اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن مالی تنگی کے باعث وہ اپنا رشتہ تعلیم سے منقطع کرلیتے ہیں اور وہیں کچھ ایسے کند ذہن طلباء بھی ہیں جن کے والدین انتہائی رئیس اور مالدار ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ ان پر پیسہ خرچ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اس کے باوجود ان کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور جیب خرچ کے لئے بے حساب دولت فراہم کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے طلباء نہ صرف تعلیم میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ پیسہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسکول ،کالج اور یونیورسٹی میں نت نئے خرافات اور برائیوں کو جنم دیتے ہیں جو قوم اور ملت کے لئے باعث عار بن جاتے ہیں۔

اگر ایسے والدین میں جذبہ قربانی پیدا ہوجائے اور وہ اپنے بچوں کی جیب خرچ کم کریں اور اپنے کند ذہن بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے بیرونی ممالک بھیجنے کے بجائے ذہین طلباء پر یہ رقم خرچ کریں تو ایک طرف ہمارا تعلیمی گراف اوپر جائے گا تو دوسری جانب عیش پسند طلباء اور ان کی اخلاقی گراوٹ میں کمی واقع ہوگی۔ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف غربت کے باعث کئی ایک جرائم جیسے جہالت، جواخوری، شراب نوشی،خود کشی،قتل و غارت گری، بے حیائی، جسم فروشی اور بچہ مزدوری جنم لے رہے ہیں تو دوسری طرف اہل ثروت اپنا کروڑہا روپیوں کا سرمایہ بینکوں میں منجمد کئے بیٹھے ہیں جس سے دوسری اقوام صد فیصد فائدہ اٹھا رہی ہے جب کہ یہ ہماری قوم کا حق ہے۔

کئی لوگ خانگی بینکوں، فینانس کمپنیوں سے دھوکہ کھا چکے ہیں اور بعض لوگ تو اپنا زندگی کا سرمایہ تک گنوا چکے ہیں کاش کہ ہم میں جذبہ قربانی ہوتا اور یہ نوبت نہ آئی ہوتی ! لیکن اس کے باوجود ہم خواب غفلت سے اٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لوگ بینکوں میں رکھنے کے بجائے مالی منفعت کو قربان کرتے ہوئے ان غریب و نادار لوگوں پر نفع بخش اسکیم کے تحت خرچ کریں تو ہم ان برائیوں پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اگر ہمارے کردار میں صحابہ کرامؓ کا جذبہ قربانی پیدا ہوجائے تو یقینا تمام ملی، دینی، معاشی، اخلاقی، سیاسی، تجارتی، رفاعی ،علمی مسائل از خود ختم ہوجائیں گے۔ہم خود اتنے خود مکتفی ہوجائیں گے کہ ہمیںکسی اور کی مدد کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے اور اس پر صدق دل کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے …

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی!
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل؟
نہ زورِ حیدریؓ تجھ میں نہ استغنائے سلیمانیؑ
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں!
کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی