یکساں سول کوڈ
متفرق مضامین

یکساں سول کوڈ مذہبی آزادی کے خلاف ہے

کسی گلستاں اور چمن کی خوبصورتی اس کا حسن، اس کی طرح طرح کی بھینی بھینی خوشبوں سے مسام جاں کو معطر کردینے والے رنگ برنگ کے بھول ہی میں پوشیدہ ہوتی ہے اگر کوئی شخص اس بات پر بضد ہو اس چمن میں بس اب ایک ہی طرح کے ایک ہی رنگ پھول ہوں گے ، ایک ہی رنگ وذائقہ رکھنے والے درخت کی ضرورت ہے باقی سب کو ختم کردیا جائے گا ایسا مالی وباغبان نہ تو عقلمند کہلائے گا اور نہ ہی دور اندیش، بلکہ ایسے شخص کو تو خبط الحواس ہی کہا جا سکتا ہے، ہمارے ہندوستاں کا حسن اس کی خوبصورتی بھی اسی چمن وگلستاں جیسی ہے جس میں مختلف رنگ ونسل مختلف مذاہب ودھرم کے ماننے والے اور الگ الگ تھذیب وطریقہ الگ الگ رسومات ، الگ الگ بولیاں بولنے والے مختلف زبان رکھنے قوم ومذہب کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔

یہ حسن دنیا کے کسی اور ملک وخطے کو نسیب نہیں ، ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ گویا کہ آئین وقانون میں دیئے گئےبنیادی حقوق و مذہبی آزادی کو سلب کرکے سیکڑوں مذاہب وتہذیبوں کے پیروکاروں کو ایک ہی دھاگے میں باندھنا نہ ملک کے لئے کسی طرح مفید ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملک کی سالمیت اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کے لئے کسی طرح سود مند۔

اور یہ سول کوڈ جس کے نفاذ کی اس وقت کوششیں ہو رہی ہیں یہ ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ بی جے پی اسے سیاسی حربے کے طور پر اپنے مفاد کے پیش نظر کررہی ہے اس لئے ہر ہندوستانی کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے کیونکہ ملک سے وفاداری کا ہم پر یہ تقاضا بھی ہے کہ ملک کے مفاد کے خلاف ہونے والی کسی بھی سرگرمی کی ہم کھل کر مخالفت کریں گے اور حتی الامکان ہم ملک کی سالمیت اس کی یکجہتی کی حفاظت کی خاطر ملک کے لئے کسی بھی طرح کے نقصان دینے والے کسی بھی قانون کی مخالفت ضروری ہے۔

اس وقت بی جے پی کو یکساں سول کوڈ کے جِن کو بوتل سے باہر لانے کی ضرورت صرف اس وجہ سے پڑی کہ 2024 چناؤ ان کے لئے کانٹو بھر پکڈنڈی سے کم ثابت نہیں ہورہا ہے مزید کرناٹک چناؤ کی شکست کا بھوت بھی ستا رہا ہے اور ابھی اسی سال ہونے والے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے الیکشن کا منظرنامہ پر بھی جلتے ہوئے منی پور کا دھواں صاف دکھائی دیتا ہے اور مدھیہ پردیش بھوپال کے سرکاری دفتر ستپوڑا بھون میں لگی آگ شیوراج چوہان کی ہار کی پوری داستان دُہرا رہا ہے۔

یکساں سول کوڈ اس وقت اکثریت کو لبھانے کا ایک لالی پاپ ہے ورنہ اس ملک کو نہ ہی یکساں سول کوڈ کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ہندوراشٹر کی، صدیوں سے لوگ اسی ہندستان میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے آئے ہیں نہ کبھی کسی دوسرے دھرم کے ماننے والوں کوئی پریشانی ہوئی اور نہ اس کی گنگنا جمنی تہذیب پر کوئی فرق پڑا، آج بی جے پی اور سنگھ لوگوں کے درمیان نفرت کے ذریعہ دوریاں پیدا کررہی ہے اور یہ یکساں سول کوڈ بھی اسی سازش کا ایک حصہ ہے۔

ملک کے آئین اور قانون نے ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے اپنے طور طریقے سے جینے، اپنی تہذیب اپنی رسومات کے مطابق شادی بیاہ کرنے کی آزادی دی ہے اور اسی میں لوگ خوش ہیں۔

یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق ومذہبی آزادی واختیار سلب کرکے لوگوں کو بندک بنادیاجائے گا جو کسی بھی ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لئے کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔

الغرض یونیفارم سول کوڈ نہ صرف یہ کہ غیر ضروری بلکہ یہ ملک وسماج دونوں کے لئے نقصان دہ ہے اس سے ملک و سماج انتشار وبد امنی کا شکار ہوگا، اس لئے حکومت ملک کو مزید معاشی بدحالی سے بچانے کے لئےغیر ضروری کاموں میں اپنا قیمتی سرمایہ اور وسائل کو برباد نہ ہونے دے۔

ملک کو اس وقت سب سے زیادہ جمہوری تابے بانے کو مضبوط کرنے، نفرت کے خاتمے اور امن وآمان کی بحالی ، گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت ، ملک کے معاشی نظام کو مستحکم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی پٹری پر دوڑ سکے اور یہ کام تمام طبقات ومذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ باہمی اتحاد واتفاق اور مذہبی آزادی کے بغیر ممکن نہیں اس لئے حکومت اور آئین کے محافظوں کو سیاسی مفاد سے قطع نظر ملک کے معاشی سماجی استحکام پر توجہ دینی چاہئے۔