آج کسی بھی قربانی کرنے والے سے پوچھئے کہ بھائی یہ بکرا کیوں کاٹتے ہیں، تو اکثریت کو اس کا جواب ہی نہیں معلوم۔ بعض صرف اتنا کہہ پاتے ہیں کہ ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی دی تھی اس لئے اس کی یاد میں ہم قربانی کرتے ہیں۔
قربانی یقینا ابراہیم ؑ ہی کی نشانی ہے کیونکہ اسی کے بعد انہیں ”انّی جاعلک لنّاسِ اماما“ سے نوازا گیا یعنی وہ دنیا کے امام سردار یا قائد بنادیئے گئے۔ اور اس کے بعد امت ابراہیمی میں پیدا ہونے والا ہر مسلمان دنیا کی قیادت کا منصب دار ہوگیا۔اس قربانی سے ہمیں تو یہی پیغام ملتا ہے کہ قیادت یعنی لیڈرشِپ مسلمان کا حق ہے، مسلمان صرف لیڈرشِپ کے لئے پیدا کیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان فقط چپراسی، سیلزمین، چھوٹے موٹے تاجر، ڈرائیور، واچ مین، مولوی موذّن، یا کارخانوں کے ورکریا پھر حلال حرام کی پروا کئے بغیر خوب کمانے والے امیربن کر رہ گئے ہیں۔ بکرے تو ہر سال لاکھوں کٹتے ہیں، لیکن اس کے صلے میں دور دور تک کسی کو قیادت ملی ہو، یہ دیکھنے میں ہی نہیں آتا۔ آیئے دیکھتے ہیں ہم سے غلطی کہاں ہورہی ہے۔
لیڈرشِپ نہ بکرا کاٹ کر ملتی ہے، نہ گوشت تقسیم کرنے سے ملتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد فرمادیا کہ تمہاری قربانی کا نہ گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ خون، پہنچتا ہے تو صرف تقویٰ۔ جو چیز قربانی کے بعد لیڈرشِپ کے انعام سے نوازے جانے کا ذریعہ ہے وہ دراصل قربانی کرنے سے پہلے سچے دل سے نکلنے والی وہ نیت ہے جس کے بعد وہ بکرے پر چھری پھیرتا ہے۔ یہ نیت وہ عربی عبارت نہیں جو مولوی صاحب سکھاتے ہیں۔بلکہ وہ نیت جو بیٹے کے گلے پر چھری پھیرتے وقت حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں تھی۔ وہ یہ تھی کہ”ائے اللہ تیرے حکم کے آگے میں اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر“۔
قربانی کا اصلی فلسفہ اس کی نیّت میں پوشیدہ ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بکرے کے گلے پر چھری چلانا سنّت ابراہیمی ہے۔ انہیں یہی سکھایا گیا ہے۔ اگر نیت یاد نہیں ہے تو کاغذ دیکھ کر یا سن کر الفاظ دوہرادیتے ہیں۔ چونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بیٹھا ہوا ہے بلکہ بٹھادیا گیا ہے کہ جانور کے خون کے پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ قربانی کو قبول فرمالیتا ہے اور سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اس لئے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے چار بکرے قربان کئے اور ہم نے پانچ۔
دوستو؛ کیا یہی قربانی ہے؟ کیا یہی سنت ابراہیمی ہے؟۔ یاد رہے کہ اسلام اور دوسرے تمام مذاہب کی عبادتوں اور عیدوں میں فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کی کوئی عبادت بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ ہر ہر عبادت کے پیچھے ایک نہ ایک مقصد، لاجِک اور انسانیت کے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ اس میں پوشیدہ ہے۔ آپ دوسرے مذاہب کے تیوہاروں کے دیکھئے، بے مقصد اور بے فائدہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ برباد کیا جاتا ہے جس سے نہ خود انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ قوم کو۔ بلکہ کچھ تیوہار تو ایسے بھی ہیں جن میں انسانوں کی جان بھی جاتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بکروں کو کاٹنے اور گوشت بھون کر کھانے کا بھلا کس کو فائدہ پہنچتا ہے سوائے اس کے کہ دو تین وقت کچھ لوگوں کا پیٹ بھرجاتا ہے۔یہ فائدہ کوئی ایسا بھی بڑا فائدہ نہیں جس کے لئے اتنے بکھیڑے مول لئے جائیں اور نہ اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز ہے جس کے فضائل میں اتنی آیتیں اور حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ کر تو واقعی لگتا ہے کہ یہ خودساختہ دانشوراور منکرینِ حدیث شائد غلط نہیں کہہ رہے ہیں کہ قربانی کے بجائے یہی پیسہ تعلیم یا فلاحی کاموں پر لگا دیا جائے تو کہیں زیادہ فائدے ہوسکتے ہیں۔
جب تک لوگ قربانی کی نیّت کیا ہے اس کو نہیں سمجھیں گے، اسی طرح لاکھوں جانور ہلاک ہوتے رہیں گے۔ آیئے جانیں کہ نیّت کیا ہے جس میں ایک انقلاب چھپا ہے۔ نیّت وہ نہیں جو زبان سے آپ پڑھ رہے ہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت جو ارادہ یا سچّا عزم یا مقصد دل اور دماغ میں چلتا رہتا ہے اس کو نیت کہتے ہیں۔اسی لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر عمل کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے۔ جس کے دل میں اس دنیا کی قیادت کو ہاتھ میں لینے اور کفر کو نیست وبابود کرنے کا پکّا عزم ہو اس کو قیادت مل کر رہے گی، لیکن اس کے لئے ابراہیم ؑ کی طرح کئی اور قربانیوں سے گزرنا ہوگا۔ کہیں قانون اور حکومت سے ٹکراؤ ہوگا، تو کہیں خاندان سے، کہیں بیوی بچوں کو چھوڑ کراللہ پر توکّل کرکے ہجرت کرنی پڑے گی تو کہیں صحراؤں میں بھٹکنا ہوگا۔ جن کے دلوں میں امت کو کھڑا کرنے کا نہ جذبہ ہے نہ شعور، دلوں میں پولیس کا خوف، بچوں کے مستقبل کا خوف،دامادوں کی زیادہ سے زیادہ مال دے کر خریدنے کی ہوس اور خود اپنی جان و مال کا خوف ہے، ایسے لوگوں کی طرف سے جو قربانی دی جاتی ہے اس کا صلہ صرف وہی گوشت ہے جو وہ کھاتے بھی ہیں اور بانٹتے بھی ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ کو یہ امامت صرف ایک بیٹے کی قربانی کے بعد نہیں مل گئی۔یہ قربانی تو آخری امتحان تھا، جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت وہ تمام امتحان بھی ذہن میں ہونے لازمی ہیں جن سے گزر کر ابراہیم ؑ بیٹے کی قربانی تک پہنچے۔ چھری پھیرتے ہوئے بندہ کی نیت یہی ہو کہ میں بھی ان تمام قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
سب سے پہلا امتحان حلال کمائی کا ہوتا ہے۔ جب ابراہیم ؑ نے دیکھا کہ والد کی کمائی حلال نہیں ہے۔ وہ بت بنا کر بیچتے ہیں، آپ نے والد کا گھر چھوڑ دیا۔بندہ چھری پھیرنے سے پہلے ایک لمحہ یہ سوچ لے کیا اس کی کمائی حلال کی ہے؟کسی مولوی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ”استفت بقلبک“ یعنی اپنے دل سے پوچھ، اپنے ضمیر سے پوچھ۔
دوسرا امتحان محلہ اور شہر چھوڑنا ہے۔ جب ابراہیم ؑ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ لوگ ان پتھر کے بتوں یا مورتیوں کو توڑ کر ایک اللہ کی عبادت اختیار کریں لیکن لوگ نہ مانے۔آپ نے
بتوں کو صرف توڑا ہی نہیں بلکہ عقلی اور منطقی طور پر لوگوں کو ہر طریقے سے سمجھایا کہ نہ چاند سورج خدا ہوسکتے ہیں، نہ پتھر اور مٹی کی مورتیاں خدا ہوسکتے ہیں، اور نہ خدا کا تصور ان کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان کے مسلمان اس طرح سے سعودی عرب یا پاکستان وغیرہ سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں اسی ماحول میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے جس ماحول میں ابراہیم ؑ پیدا کئے گئے تھے، یعنی جہاں قدم قدم پر بت بنائے جاتے ہیں اور پوجے جاتے ہیں۔ ہم جو کام دعوت کہہ کر صرف مسلمانوں میں کرتے ہیں وہ دعوت ہرگز نہیں بلکہ نصیحت ہے۔ دعوت تو صرف اسے کہتے ہیں جو مشرکین، کفار اور اہلِ کتاب کو دی جائے۔ جو لوگ کلمہ نہیں جانتے یا جان کر انکار کرتے ہیں، انہیں اللہ کی طرف بلانا اصل دعوت ہے۔ اس کام میں ہر قدم پر وہی مرحلے آتے ہیں جن سے ابراہیم ؑ گزرے۔بکرے ذبح کرنے والے بسم اللہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دل میں یہ سچا عزم پیدا کرلیں کہ سال میں کم از کم ایک مشرک کو ابراہیم ؑ کی طرح ایک اللہ کی بندگی میں داخل کروں گا تو وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں آپ کی اکثریت ہوجائیگی، ورنہ آج اذانوں اور لاؤڈاسپیکر پر پابندیاں لگ رہی ہیں کل مسجدوں پر پابندی لگ جائیگی۔
تیسرا امتحان تھا قانون سے ٹکرانے کا۔ یہ کوئی معمولی امتحان نہیں ہے۔ ہر حکمران یہی چاہتا ہے کہ صرف اس کا حکم چلے، اور جو اس کی مرضی پر نہ چلے اسے سزائے موت، یا عمر قید، یا جھوٹے انکاؤنٹر یا پھر جھوٹے الزامات میں ساری عمر عدالتوں کے چکر کاٹنے کے عذاب میں مبتلا کردے۔لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن قانون کے آگے مجبور ہوکر اکثر مخبر (انفارمر) بن جاتے ہیں۔ ابراہیم ؑ کو بھی سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن آپ نے یہ پکّی نیت کی ہوئی تھی کہ گھر یا شہر تو کیا جان بھی اللہ کے لئے قربان کرنی پڑی تو کردیں گے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانِ عزیز کو ختم ہونے سے بچالیا۔ لیکن امتحانوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگلا امتحان تھا بیوی اور نوزائیدہ بچے کو لے کر ملک چھوڑ دینے کا۔ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل میں بیوی اور بچے کو لے کر بے آب و گیاہ صحرا میں نکل پڑے اور تقریباّ ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ طئے کرنے کے بعد جس مقام پر پہنچے اسے دنیا آج مکۃ المکرمہ کے نام سے جانتی ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد حکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو چھوڑ کر واپس پلٹو۔ بیوی نے یہ بحث نہیں کی کہ یہ کیسا اسلام ہے کہ آدمی اپنی بیوی اور بچے کو تنہا صحرا میں چھوڑ کر چلاجائے۔ صرف اتنا پوچھا کہ ”کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟“۔ جواب ہاں میں ملنے پر بیوی نے خداحافظ کہہ دیا۔ جب بیوی کو شوہر پر اعتماد ہو کہ اس کا شوہر اللہ کے حکم سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تو ایسی بیوی، شوہر پر ضرور اعتماد کرتی ہے۔
پھر برسوں بعد جب وہ اللہ کے حکم سے واپس لوٹ کر آتے ہیں تو بچہ بڑا اور سمجھ دار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد وہ آخری امتحان لیا جاتا ہے جس کو ہم قربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بندہ کسی مقصڈکے لئے والدین کو چھوڑ سکتا ہے، ملک کو چھوڑ سکتا ہے، بیوی کو بھی چھوڑ سکتا ہے لیکن اولاد کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہیں پر ہر انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ آزمانا تھا کہ ابراہیمؑ اللہ کی محبت میں اولاد کو قربان کرتے ہیں یا اولاد کی محبت میں اللہ کے حکم کو ٹالتے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے لوگ اولاد کی محبت میں آزمائے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر، اعلیٰ تعلیم کے لئے، بچوں کے شاندار مستقبل کے لئے لوگ اللہ کے احکامات کو جانتے ہوئے بھی مان نہیں سکتے۔ لیکن ابراہیم ؑ اس امتحان میں بھی پورے اترے۔ اور بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے تیار ہوگئے۔ اس امتحان میں پورے اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شاندار انعام کا اعلان فرمایا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ ”و اذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما“ (سورہ بقرہ 124) یعنی جب ابراہیم کے رب نے انہیں کئی باتوں سے آزمایا، اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے تو کہا کہ میں آپ کو تمام انسانوں کی امامت عطاکروں گا“۔ امامت یعنی لیڈرشِپ کے ہیں۔ لوگ جو اس لیڈرشپ کے معنی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک لیڈرشپ کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں لے جانی والی لیڈرشپ۔ یہ وہ لیڈرشپ ہے جو تمام انسانوں کی اخلاقیات، اکنامی، سیاست، امن انصاف او حقوق العباد کے مکمل نظام کو قائم کرنے والی لیڈرشپ ہے۔
دوستو؛ یہ صرف ایک بکرے کی قربانی نہیں ہے۔ اس کے خون کا پہلا خطرہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا کی لیڈرشپ کے لئے پیدا کیا ہے، اس پر ہمارا حق ہے، یہ ہمارا منصب ہے،۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ، وکالت یا مزدوری وغیرہ تو صرف روٹی کمانے کے ذرائع ہیں، ہمیں ان کے لئے نہیں بلکہ ہم کو اس دنیاکا نظام بدلنے کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ کیونکہ جب آپ نظام بدلنے کے لئے نہیں اٹھیں گے تو لازمی طور پر کسی اور نظام کے تحت آپ کو غلام بن کر رہنا ہوگا جیسے کہ آج ہم ہیں۔ اگر آپ مشرکانہ نظام کو ختم نہیں کرینگے تو انہی جھوٹے خداؤں کی پرستش آپ کے سر پرمسلّط ہوکر رہے گی۔ آپ اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے نہیں اٹھیں گے تو غیر اللہ کی محکومیت آپ کی سزا ہوکر رہے گی۔ اس لئے جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت یہ اچھی طرح سوچ لیجئے کہ آپ ایک جانور کی جان لے کر کیا چاہتے ہیں۔ صرف مزے دار پکوان یا ایک انقلاب؟ اگر انقلاب چاہئے تو یہ بھونے ہوئے گُردے اور کلیجی کی خوشبو کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ ابراہیم ؑ کی ان قربانیوں اور امتحانوں کو اپنے ذہن میں چھری پھیرتے وقت تازہ کرنے سے آئے گا۔ تو گویا قربانی کی نیت یہ ہوئی کہ ”ائے اللہ، میں ان تمام قربانیوں کے لئے تیار ہوں جو ابراہیم ؑ نے دی تھیں۔ میں تیرے حکم پر چلنے کے لئے اپنی حرام کمائی تو کیا، گھربیوی بچے یا ملک تو کیا اگر اولاد کو بھی قربان کرنا پڑے تو کردوں گا اور اگر اولاد کو ایسے ذبح بھی کرنا پڑے تو کردوں گا، بسم اللہ اللہ اکبر“۔ جب بندہ اس سچّی نیت کے ساتھ جانور ذبح کرتا ہے، اور اس کا گوشت گھر گھر پہنچتا ہے تو یہ گوشت دراصل ایک پیغام ہے جو گھر گھر یہ اعلان کرتا ہے کہ بھیجنے والے نے یہ عہد کرلیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے۔اس طرح اللہ کا وہ کیا دین ہے، کیا حکم ہے جس کے لئے یہ بندہ اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے، وہ ہر ایک کے ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح پورا خاندان اور پورا معاشرہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ فائدہ جو ایک بکرے کی قربانی کے ذریعے ہوتاہے۔
ہر قربانی کرنے والا چھری پھیرتے وقت پہلے اپنی انا کو ذبح کرے، اپنی قابلیت، اپنی ”میں“، اپنی شہرت یا دولت کی تمنا، اور اپنے خاندان کے فخروغرور کو ذبح کرے اور ایک معمولی خدمت گزار کے طور پر اپنے آپ کو ایک اجتماعیت اور ایک امیر کی اتباع کے حوالے کردے، تب جاکر ایک بکرے کی قربانی سے دنیا کو فائدہ پہنچے گا، ورنہ اپنی انا کو قربان کئے بغیر جو قربانی ہوگی اس سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا، امت جتنی ذلت کا شکار آج ہے اس کی ذلت میں ہر سال اضافہ ہوتا جائے گا۔