[ برادر عزیز مولانا سمیع اللہ عمری نے اطلاع دی کہ ریاست تامل ناڈو کے کچھ علماء اس موضوع پر غور و فکر کے لیے اکٹھا ہورہے ہیں کہ حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم نوجوانوں سے شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں ان کی روک تھام کیسے کی جائے؟ انھوں نے خواہش کی کہ میں ان علماء کے سامنے کچھ تمہیدی گفتگو کروں – ان کی خواہش کی تعمیل میں میں نے وائس ریکارڈنگ بھیج دی تھی – اسی کو یہاں تحریری صورت میں پیش کیا جارہا ہے – ]
محترم بھائیو!
میرے لیے یہ بہت خوشی کا موقع کا ہے کہ تمل ناڈو کے مختلف مقامات سے تشریف لائے علمائے کرام سے مخاطب ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر فکرمند رہتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے برابر کوشاں رہتے ہیں ۔
محترم بھائیو ، عزیزو !
سماجی برائیوں پر فکر مند رہنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ، لیکن یہ ذمہ داری خاص طور پر طبقۂ علماء پر عائد ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ انہیں دین کا گہرا شعور حاصل ہوتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں ۔ کتاب وسنت کی انہیں معلومات ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کتاب وسنت کی بنیادی تعلیمات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں اور سماج میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کی اصلاح کی بھی جدّوجہد کریں ۔
محترم بھائیو!
سماجی برائیاں متعدی بیماریوں کے مثل ہیں ۔ متعدی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں ۔ لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں ۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے حفاظتی تدابیر اختیار کرلی ہیں ، میں تو گھر میں رہتا ہوں ، اس لیے ان سے محفوظ رہوں گا ۔ کیوں کہ متعدی بیماریاں ہوا ، پانی اور دوسری چیزوں سے پھیلتی ہیں ۔ اس طرح ایک جگہ رہنے والوں کا ان سے متاثر ہوجانا عین ممکن ہے ۔ ٹھیک یہی حال سماجی برائیوں کا ہوتا ہے ۔ کچھ افراد ایک جگہ رہتے بستے ہیں ، آپس میں ملتے جلتے ہیں تو اس کا قوی اندیشہ رہتا ہے کہ جن برائیوں میں وہ مبتلا ہوں ، دوسرے لوگ بھی ان سے متاثر ہوجائیں ۔ اس سے بچنے کا بس یہی طریقہ ہے کہ ان کے سلسلے میں بیداری لائی جائے ، ان کی قباحت بیان کی جائے اور ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے ۔
محترم بھائیو!
اس وقت ہمارے سامنے جو موضوع ہے ، جس پر غور وفکر کے لیے ہم لوگ جمع ہوئے ہیں ، وہ یہ ہے کہ اِدھر کچھ عرصہ سے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ رہنے اور ان سے نکاح کرلینے پر آمادہ ہوگئی ہیں ۔ ایسے واقعات ملک کے کسی خاص حصے میں نہیں ، بلکہ پورے ملک میں اِدھر کچھ عرصہ سے پیش آرہے ہیں ۔ پہلے اس چیز کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ مسلمان چاہے دین سے کتنے ہی غافل ہوں ، مسلم کلچر اتنا مضبوط تھا کہ کوئی شخص اس کا تصور نہیں کرسکتا تھا ۔ چند سال پہلے تک اس طرح کے واقعات اِکّا دُکّا پیش آتے تھے اور سماج میں بیداری کی وجہ سے دوسرے لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔ لیکن اِدھر چند سال سے ایسے واقعات ملک کے تمام حصوں میں پیش آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ دینی نقطۂ نظر سے یہ چیز اتنی غلط ہے کہ اس سلسلے میں ہم سب کا فکر مند ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہم غور کریں کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ تو بنیادی طورپر دو اسباب ہماری سمجھ میں آتے ہیں : ایک سبب بیرونی ہے اور دوسرا اندرونی ۔ بیرونی سبب کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دشمن لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بنایا ہے اور اس کا اعلان بھی کر رکھاہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو تیارکریں گے ، ان کا مالی اور قانونی تعاون کریں گے اور ان کو سُجھائیں گے کہ مسلم لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسائیں ، ان کو نکاح کرنے پر آمادہ کریں ۔ نکاح کے بعد حمل ٹھہرجائے تو کچھ عرصہ بعد ان سے لاتعلق ہوجائیں ۔ اس طرح انہوں نے مسلم سماج میں فساد پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ ان لوگوں کی طرف سے اس طرح کے علانیہ بیانات سامنے آتے رہتے ہیں ۔اندرونی سبب یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس سلسلے میں پہلے جو حسّاسیت پائی جاتی تھی اس میں اب کمی ہوئی ہے ۔ ان کی نئی نسل: لڑکوں اور لڑکیوں کو پہلے ایسا پاکیزہ ماحول ملتا تھا کہ وہ ان سب چیزوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ اب اس حساسیت میں کمی آئی ہے ، دوسرے یہ کہ تعلیم کا مخلوط ماحول عام ہوا ہے ، لڑکے اور لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے درمیان روابط استوار ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح بھولی بھالی لڑکیاں نوجوان لڑکوں کے بہکاوے میں آجاتی ہیں ۔ تیسرے یہ کہ لڑکیوں کے نکاح میں مختلف اسباب سے تاخیر کی جانے لگی ہے ، جنسی جذبہ جوش مارتا ہے تو اس کی تسکین کے لیے جائز ، ناجائز کی پروا نہیں کی جاتی ۔
بہرحال ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فتنہ کے اس سیلاب پر بند لگانے کی کوشش کریں ۔ اس تعلق سے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کروں گا ۔ ہم میں سے ہر شخص اس کے بارے میں فکرمند ہو ۔ اپنا کردار ادار کرے ۔ اجتماعی طور پر بھی ہم سب کچھ فیصلے کریں اور اس پر عمل کی کوشش کریں :
سب سے پہلا کام یہ کہ ہم مسلم عوام کے درمیان بین مذاہب شادیوں کی قباحت ، بلکہ حرمت کو آشکارا کریں ۔مختلف پلیٹ فارمس پر ہم یہ بات کہیں ۔ عام مسلمانوں تک پہنچنے کا سب سے اچھا پلیٹ فارم ، جو ہمیں حاصل ہے ، وہ خطباتِ جمعہ کا ہے ۔ بہت سے مسلمان ، جنہیں پنج وقتہ نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ، وہ بھی جمعہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے لازماً مسجد پہنچتے ہیں ۔ ہم اپنے خطباتِ جمعہ میں اس موضوع کو اٹھائیں ، اس پر اظہار خیال کریں ، یہ بتائیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صراحت سے بین مذہبی شادی کو حرام قرار دیاہے ۔ نہ کسی مسلم لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی غیر مسلم لڑکی سے نکاح کرے اور نہ کسی مسلم لڑکی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی غیر مسلم لڑکے سے نکاح کرے ۔ اس کے ساتھ ہم عقلی طور پر بھی بتائیں کہ اس کا کیا نقصان ہے؟ بین مذہبی شادی کے فطری نقصانات کیا ہیں؟ اس سے نسل خراب ہوتی ہے ، وہ بے دین ہوجاتی ہے ۔ اس عمل میں اللہ اور اس کے رسول کی صریح نافرمانی ہے ۔
دوسرا کام ہم یہ کرسکتے ہیں کہ نکاح کی تقریبات میں بھی اس موضوع کو اٹھائیں ۔ نکاح کے لیے عموماً علماء و ائمہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ہر نکاح کے موقع پر ہم اسلام کی عائلی تعلیمات بیان کریں ، زوجین کے ایک دوسرے پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ خاندان کے لوگوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟ ان باتوں کو بتائیں ۔ ایسا کرنے سے بھی سماج میں بیداری آئے گی ۔
تیسرا کام ہم یہ کرسکتے ہیں کہ محلہ کی سطح پر مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کریں ۔ جو لڑکیاں اور لڑکے کالجوں میں پڑھتے ہیں ، شادی کی عمر کو پہنچنے والے ہیں ، ان کی شادی کچھ عرصہ میں ہوجائے گی ، یا ہوگئی ہے ، ایسے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو جمع کریں اور ان کی کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کریں ۔ انہیں بتائیں کہ اسلام کی عائلی تعلیمات کیا ہیں؟ نکاح کے مقاصد کیاہیں؟ اس کی شرائط کیاہیں؟ کیا چیزیں جائز اور کیا ناجائز ہیں؟ اسلام نے بین مذہبی شادی کو کیوں حرام کیا ہے؟ یہ سب باتیں سمجھانے کی کوشش کریں۔
جماعت اسلامی ہند نے اس سلسلے میں ایک کورس تیار کیا ہے : ازدواجی تفہیمی کورس(Pre Marriage Counseling Course)۔اس کے پندرہ سولہ لکچرس کے عناوین ، ذیلی عناوین ، اس موضوع پر مطبوعہ مواد ، کتابوں کی فہرست ، سب چیزیں تیار کردی گئی ہیں اور ان کو پورے ملک میں عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مقامی جماعتوں کی جانب سے ایسے کورسس چلائے جاتے ہیں ۔ مقامی جماعتوں سے وہ تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں اور مجھ سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔ میں ان شاء اللہ ان کی پی ڈی ایف فراہم کردوں گا ۔ اس طرح کے کاؤنسلنگ پروگرام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔
آخری بات یہ کہ اس طرح کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان میں ہمارا رویہ ہم دردانہ ہونا چاہیے ۔ عام طور سے اس طرح کے واقعات کو ’ارتداد‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ زیادتی ہے ۔ کسی دوسرے مذہب کی لڑکی یا لڑکے سے نکاح کرلینا غلط ہے ، بہت بڑا گناہ ہے ، لیکن اس کو ’ارتداد‘ کہنا درست نہیں معلوم ہوتا ۔ ارتداد کا تعلق عقیدے سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی مسلم لڑکا یا لڑکی عقیدے سے انحراف نہ کرے ، اللہ پر ایمان رکھے ، رسول پر ایمان رکھے ، آخرت پر ایمان رکھے ، اس سے چاہے جتنا بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہو اور وہ گناہ ایک بار نہیں ، بار بار ہوتا رہے ، تب بھی اسے مرتد کہنا درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسے اس گناہ سے نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ ہوتا یہ ہے کہ جوانی کے جوش میں نوجوان لڑکیوں سے ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں ، پھر حقیقت کی دنیا میں کچھ وقت گزارنے کے بعد انہیں اس عمل پر پچھتاوا ہوتا ہے ۔ جو مسلم لڑکیاں اس کا ارتکاب کر بیٹھتی ہیں وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتی ہیں تو اس معاملہ میں ان کو سپوٹ کرنا چاہیے اور ان کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ماں باپ کو اپنا دل بڑا کرنا چاہیے ۔ اگر ان کی کوئی لڑکی ایسے کام میں ملوث ہوگئی ہو اور کچھ عرصہ کے بعد اس کو شرمندگی کا احساس ہو اور وہ رجوع کرنا چاہے تواس کو اس کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے ۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ حضرات اکٹھا ہوئے ہیں ، آپ کے علاقے میں اس طرح کے جو واقعات پیش آئے ہیں ، ان کی آپ اصلاح چاہتے ہیں ۔ ایسے واقعات آئندہ پیش نہ آئیں ، اس کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بڑا مبارک اقدام ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو کام یابی سے ہم کنار کرے اور اس تعلق سے آپ جو منصوبہ بندی کریں اس پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔