حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لیے آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ واحدہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک امت اور ایک جماعت بنایااور مسلمانوں کو متحد رہنے اور اجتماعی نظام کو برپا اور بر قرار رکھنے کی تعلیم دی، اس سے جو الگ ہوا، اسے جہنم کی وعید سنائی، اللہ رب العزت نے اعتصام بحبل اللہ یعنی دین کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا، اور تفرقہ سے دور رہنے کی تلقین کی۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے خلافت کو علی منہاج النبوة باقی رکھا اور امیر المومنین کے لقب سے یاد کیے گیے، بعد میں ”المومنین“ کا لفظ ہٹ کر صرف ”امیر“ رہ گیا، چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ امیر ہی سے مشہور ہوئے، پھر دھیرے دھیرے یہ امیری، ملوکیت اور شہنشاہیت میں بدل گئی.
پورے دور بنو امیہ اور بنو عباسیہ میں یہی کیفیت رہی، اسلام کے بعض اصول وضوابط پر عمل ہوتا رہا اور بیش تر امور بادشاہوں کے چشم وابرو کے اشارے پر انجام پذیر ہوتے رہے، ایسے میں دھیرے دھیرے خلافت ختم ہو گئی اور عربوں میں ملوکیت کا غلبہ ہو گیا، مرکزِ خلافت عربوں سے نکل کر ترکی منتقل ہوا، یہاں بھی سلطانی جمہور کا ایک طویل دور گذرا، پھر خلافت عثمانیہ قائم ہوئی، دور دراز کے ممالک اس کے زیر نگیں تھے، ہندوستان میں گو انگریزوں کی حکومت تھی؛ لیکن مسلمان خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے.
مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد وہ خلافت عثمانیہ کو علامتی طور پر گم گشتہ سرمایہ سمجھتے تھے،28/ جولائی 1914سے 11/ نومبر1918ءتک پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے حلیف ممالک کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا، مغربی ممالک نے معاہدہ لوزان کرکے ترکی کو بے دست وپا کر دیا، اور ترکی کا ”مرد بیمار“ اس کا مقابلہ نہیں کر سکا، اور بالآخر یکم نومبر 1922ءکو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، ہندوستان میں زبر دست خلافت تحریک چلی؛ لیکن حاصل کچھ نہیں نکلا۔ کچھ سالوں قبل ترکوں کا ”مرد بیمار“ تندرست وتوانا و دانا ہو کر ہمارے سامنے آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی.
مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کو اللہ رب العزت نے دور اندیشی اور فکر وفہم کی دولت سے مالامال کیا تھا، اپنی دور اندیشی سے انہوں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے، وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں بھی سلطانی جمہور کا زمانہ آنے والا ہے، ایسے میں خلافت علی منہاج النبوة کا قیام ہندوستان میں ممکن نہیں ہوگا، انہوں نے ایک نیا تصور پہلی بار ”تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة“ کا دیا، یعنی نبوی طریقہ کار کو سامنے رکھ کر اپنے اوپر شریعت کو نافذکیا جائے، ان کی اس نئی سوچ اور فکر کی ہندوستانی علماء نے تائید کی.
مولانا نے تین مرحلوں میں الگ الگ پلیٹ فارم سے اس فکر کو عام کرنے کے لیے تحریک چلائی، پہلے انجمن علماءبہار بنایا، پھر جمعیت علماءکی داغ بیل اکابر علماءکے ساتھ مل کر ڈالی اور بالآخر اسلام کے اجتماعی نظام کی بقاء اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے 26جون 1921ءمطابق 19شوال 1339ھ کوغیر منقسم بہار میں ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ کی جدوجہد سے امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا.
یہ دراصل خلافت راشدہ کی عدم موجودگی میں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی ایک شکل اور ملت کی شیرازہ بندی کے لئے ایک شرعی تنظیم ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ نے امارت شرعیہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ”کسی ایک لائق شخص کی سربراہی میں افراد امت کی ایسی شیرازہ بندی کہ اس پر جماعت کا اطلاق ہو سکے، احکام شرعی کا نفاذ و اجراء بقدر امکان انتظام پا سکے اور جمعہ وجماعت، نکاح و طلاق ومیراث وغیرہ کے احکام کی تنفیذ ہو سکے اور اگر اس سے زیادہ قوت ہو تو استخلاف وتمکین فی الارض کا وہ فرض بھی ادا ہو سکے جس کی بشارت قرآن پاک نے دی ہے“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ:9)
مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے امارت کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ”اس قسم کے نظم ملت سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کی وحدت نمایاں ہو، ان کے تمام مذہبی وملی کام منظم ہوں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں، ان کے مصارف مداخل ملی میں ایک نظم پیدا ہو اور اصلی جماعتی روح ان میں نمایاں ہو، دار القضائ، دار الافتاء اور بیت المال کا قیام ہو، ان کے غریبوں اور محتاجوں کی با قاعدہ امداد ہو، ان کی معاشرتی خرابیوں کی اصلاح ہو، تبلیغ واشاعت کا سلسلہ قائم ہو، ان کے مکاتب ومدارس مالی نزاع سے نجات پائیں“(ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ 96)
اس تنظیم میں کلیدی حیثیت امیر شریعت کو حاصل ہے، سارے امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے ان کی سمع وطاعت معروف میں واجب ہے، زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں انجام پائیں، اس کی کوشش کی جاتی ہے؛ البتہ ان کی حیثیت امیر کی ہوتی ہے، امیر المومنین کی نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ایک کارکن نے اپنی ترقی سے متعلق درخواست پر بمد خوش کرنے مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس کو امیر المومنین لکھ دیا تھا تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہاں امیرشریعت ہوتا ہے، امیر المومنین نہیں۔
ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی لکھنؤ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: ”امیر شریعت امام اعظم نہیں ہے، جس کی ولایت عامہ تمام ممالک اسلامیہ کو محیط ہوتی ہے؛ بلکہ وہ والی ہے اور اس کی ولایت عامہ ان بلاد وقریہ کو محیط ہوتی ہے کہ جس کی ولایت اس کے سپردکی گئی ہو“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت۔ صفحہ 10)
امارت شرعیہ کے شعبہء جات میں تنوع ہے، یہاں مذہبی رہنمائی اور عائلی امور میں ظلم اور ناانصافی کو دور کرنے کے لئے دارالقضاء و دارالافتاء قائم ہے، تعلیم کے میدان میں دارالعلوم الاسلامیہ، المعہد العالی اور بڑی تعداد میں مکاتب قائم ہیں، عصری علوم کے لئے امارت پبلک اسکول، مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول، قاضی نورالحسن اسکول اور پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ مستحکم اور منظم انداز میں کام کررہے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مزید معیاری بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ قائم ہے، خدمت خلق کے لئے اسپتال اور غریب ومسکین، بیواوءں کے وظیفے، غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد، امداد علاج اور زمینی وآسمانی مصیبت کے وقت ریلیف کا مضبوط نظام ہے، جس کی کوئی نظیر دوسری نہیں ملتی، یہ سارے کام بیت المال سے انجام پاتے ہیں، اس نظام کو مضبوط اور مستحکم انداز میں زمینی طور پر نافذ کرنے کے لئے اب تک مختلف ادوار میں آٹھ امراء شریعت بشمول موجودہ امیر شریعت مفکرملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ پوری تن دہی اور لگن سے کام کرتے رہے ہیں، ان کی معاونت کے لئے ہر دور میں نائب امراء شریعت کا بھی سلسلہ رہاہے۔
موجودہ نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی ہیں، اور ایک بڑا عملہ امرائے شریعت کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے خدمت کے جذبہ سے نظامت کی نگرانی میں کام کرتا رہا ہے، اور اجتماعی طریقہء کار کو روبعمل لاکر امارت شرعیہ کے کام، کاز اور نصب العین کو آگے بڑھانے میں اپنی توانائی لگائی ہے۔
یہاں مسلمانوں کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد کرنے اور تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة پر زندگی گذارنے کے لیے محنت ہوتی ہے، اس کام کو کرنے کے لئے نظامت کی نگرانی میں شعبہء تنظیم مسلسل سرگرم عمل ہے اور گاؤں گاؤں میں تنظیم بنانے کا عمل جاری ہے۔
امارت شرعیہ اپنے قیام کے زمانہ سے ہی فعال اور متحرک رہی ہے اور لوگوں کی حمایت ہر دور میں اسے حاصل رہی اور یہاں کے امرائے شریعت نے جراءت اور اولو العزمی کی تاریخ رقم کی، حکمران وقت سے آنکھوں سے آنکھیں سے ملاکر بات کیا اور ہردور میں ملت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے،۔ معاملہ طلاق ثلاثہ کا ہو یا سی اے اے کا،مسلم پرسنل لا پر آنچ آرہی ہو یا فساد کی آگ میں برباد مسلمانوں کا معاملہ، تمام موقع سے امارت شرعیہ نے ملت کو بیدار کرنے کا کام کیا اور کئی معاملوں میں اس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔
امارت شرعیہ نے اس طریقہ کار سے ملت میں نفع رسانی کا کام کیا اور قدرت کا اصول یہ ہے کہ نفع بخش چیز باقی رہتی ہے، اور غیر نفع بخش چیزیں فنا ہوجاتی ہیں، امارت شرعیہ کا سو سال سے زائد سے مسلسل اور متواتر خدمت انجام دینا اور باقی رہنا اس کی نفع بخشی کی دلیل ہے۔
احکام خداوندی واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا پر عمل اور امت کو ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گذارنے کے لئے اس ادارہ سے وابستگی ضروری ہے، اسلام کا حکم یہی ہے کہ تم جہاں کہیں رہو ایک امیر کے ماتحت زندگی گذارو، اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت بھی کرو، اگر کوئی اجتماعی نظام سے نہیں جڑا تو ان احکام پر عمل کی دوسری کوئی شکل موجود نہیں ہے، اس لئے امارت شرعیہ سے وابستگی ہماے لیے دینی، ایمانی اور شرعی تقاضہ ہے، اسی لئے بڑوں نے کہاہے کہ امارت شرعیہ ہمارے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے اور خدمات کے اعتبار سے یہ ہمارے ملی وجود کی روشن علامت ہے۔
اس شرعی تقاضہ کی تکمیل سے دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کلمہ کی بنیادپر اتحاد کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے ملت کے مفاد میں یکسو اور یک جٹ ہوکر کام کرنے کا مزاج پیدا ہوتاہے، اتحاد کی قوت کی وجہ سے بہت سارے مسائل حکومتی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اور سماجی، سیاسی میدان میں اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے، جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، جس قدر امارت شرعیہ سے لوگ جڑیں گے اسی قدر اس کی افادیت ملکی سطح پر بھی بڑھتی جائے گی اور ہر میدان میں کامیابی قدم چومے گی۔
عصر حاضر میں انفرادی کاموں سے زیادہ ٹیم ورک کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کاموں کے پھیلاﺅ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی ہر محاذ پر کام کرے، ایسے میں مختلف قسم کی صلاحیتوں کے لوگ جب امارت شرعیہ سے جڑیں گے اور ان کا تعاون ملے گا تو کام تیزی سے نمٹے گا اور ٹیم ورک کے ذریعہ یہ ممکن ہوسکے گاکہ ہم مختلف میدانوں میں تیزی سے معیاری انداز میں کام کو آگے بڑھائیں۔ امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ٹیم ورک ہے اور یہاں ہر ایک کی اپنے اعتبار سے بڑی اہمیت ہے، ہمیں اس اہمیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔