ممبئی: وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی بی جے پی حکومت کے نو سال مکمل ہونے پر مہاراشٹر سماج وادی پارٹی کے صدر ابو عاصم اعظمی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر اور رکن پارلیمان سید امتیاز جلیل، سماجی کارکن شبنم ہاشمی اور دانشور پروفیسر زینت شوکت علی نے ملک میں مسلمانوں کی صورت حال پر کہا کہ مسلمان آبادی کا 17 فیصد حصہ اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم کمیونٹی بھارتی مسلمان ‘سخت دباؤ’ میں ہیں، خوف کی نفسیات کے دہانے پر ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں تاریک شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
یہ رہنما اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ 75 سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملک کے مسلمان غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور انہیں ان کے مذہبی پس منظر سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ابو عاظم اعظمی نے کہا کہ مسلمانوں کو دیوار کے باہر ڈھکیلا جا رہا ہے، انہیں بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے، جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے اور کئی ریاستوں میں مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ان کی تاریخی شراکت یا قربانیوں کو مٹانے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ ان کے ذہنوں میں دہشت پیدا کی جا رہی ہے اور صدیوں پرانی ‘گنگا جمنا تہذیب’ اور روایات کو تار تار کیا جارہا ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان سید امتیاز جلیل نے کہا ہے کہ ‘مودی اور بی جے پی کا اقلیتوں کے خلاف رویہ انتخابی سیاست کے لئے ہندو ووٹرز کو مضبوط بنانا واحد مقصد ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اور نہ صرف اقلیت بلکہ بی جے پی کو ووٹ نہ ڈالوں کے خلاف بھی ان کا یہی رویہ ہے’۔
امتیاز جلیل نے کہا کہ 2014 میں بہت سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کے نعرے پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کو ووٹ دیا، اس کے باوجود مسلمانوں پر حملہ ہوتے ہیں، ان کو مارا جاتا ہے، ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں، وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں نہ کہ صرف بی جے پی یا اکثریتی برادری کے’۔
صفدر ہاشمی کی چھوٹی بہن ہاشمی نے کہا کہ مودی کے دور میں بھارت پہلے ہی ایک ‘نیم فاشسٹ ریاست’ بن چکا ہے، عام لوگوں کے دل و دماغ میں مسلمانوں، حتیٰ کہ عیسائیوں کے خلاف بھی کھلی نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام جمہوری اور آئینی اداروں کو تہس نہس کر دیا گیا ہے، پارلیمنٹ ایک مذاق بن گیا ہے، وہاں لنچنگ ہو رہی ہے، مسلم خواتین پر حملے ہو رہے ہیں، عصمت دری کرنے والوں کو بی جے پی حکومت نے رہا کر دیا ہے، جس سے تمام طبقوں کے لوگوں میں صدمے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کے چھوٹے تاجروں کو اب کئی بازاروں یا مذہبی مقامات سے روکا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2014 کے بعد سے ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جرائم میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ہجومی تشدد، لوجہاد، اکنامک جہاد اور دیگر بے جا الزامات کے تحت مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عام بات بن گئی ہے۔