گناہگاروں کو سزاء دینے کے لیے ساتویں زمین کے نیچے جو خوفناک مقام تیار کیا گیا ہے اسے عربی میں جہنم اور اُردو میں دوزخ کہتے ہیں۔ جب جہنم کے طبقات، اس کی ہولناکیوں اور نارِ جہنم کی قسموں، کیفیتوں اور ان کی شدت کا ذکر آتا ہے تو مسلمان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، اجسام میں لرزش پیدا ہوجاتی ہے، ابدان میں رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، قلوب و اذہان وحشت زدہ ہوجاتے ہیں اور ہر مسلمان اس عظیم دن کی سختیوں سے رہائی حاصل کرنے کے لیے خداوند متعال کے حضور گڑگڑاکر گریہ و زاری کرتے ہوئے عاجزانہ دعا کرتا ہے کہ مولا ہمیں دار البوار (ہلاکت کے گھر) کے عذاب سے محفوظ و مامون فرما اور آخرت میں رسوا و ذلیل ہونے سے بچالے۔
یقینا مسلمانوں کا یہ عمل اللہ تعالی کو راضی کرنے اور جہنم سے نجات پانے کا ایک اہم اور بہترین ذریعہ ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہؑ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا سے اس قدر گریہ و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے آپؑ کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ تاجدار کائناتؐ ایک قبر پر بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والوں آنسووں سے مٹی نم ہوگئی پھر فرمایا اے بھائیو! اس قبر کے لیے تیاری کرو۔
مسلم شریف نے سیدنا ابو سعید خدریؓ سے یہ روایت نقل کی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابتؓ سے سنا وہ کہتے تھے رسول اللہؐ بنی نجار کے باغ میں ایک خچر پر جارہے تھے ہم آپؐ کے ساتھ تھے۔ وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں حضورؐ نے دریافت کیا کہ کوئی جانتا ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں؟ ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ کب مرے؟ اس شخص نے کہا شرک کے زمانہ میں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس امت کا امتحان قبروں میں ہوتا ہے۔ پھر اگر تم (اپنے مردوں کو) دفن کرنا نہ چھوڑ دو تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تم کو قبر کا عذاب سنا دیتا، جو میں سن رہا ہوں۔ اس کے بعد آپؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جہنم کے عذاب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
موجودہ حالات میں اکثر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ مسلمان جہنم کے عذابات سے خائف و ترساں ضرور رہتا ہے اور اس سے پناہ بھی مانگتا ہے لیکن جہنم کے عذابات کی وجوہات کیا ہیں؟ کونسے افعال ایسے ہیں جو انسان کو جہنم میں لے جانے والے ہیں؟ اس پر وہ کبھی غور و فکر نہیں کرتا اور نہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ بعض ایسے افعال ہیں جو وہ خود بھی جانتا ہے کہ جہنم میں لے جانے والے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان افعال قبیحہ پر شدت کے ساتھ عمل پیرا رہتا ہے۔
مثلاً قرآن مجید نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت بیان فرمائی کہ جو لوگ ہوا وہوس کی پیروی کرتے ہوئے آخرت کو فراموش کردیتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے چونکہ اسی سے دنیا میں بد نظمیاں اور بد امنیاں پیدا ہوتی ہیں جو بالآخر جنگیں و خون ریز لڑائیوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں جس سے انسانی معاشرہ تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس کے باوجود آج کا انسان بالخصوص مسلمان دنیا کی ناپائدار خوشحال زندگی کے حصول کے لیے غیر شرعی لذتوں اور سرکش خواہشات کا شکار بنا ہوا ہے۔ آج کا مسلمان جو جانتا ہے کہ انسان کی شقاوت و سرکشی کا اصل محرک دنیا پرستی ہے پھر بھی دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے حلال و حرام کی تمیز کو مٹارہا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کے ہر عمل سے واقف و باخبر ہے اس کے باوجود محض دنیاوی منافع کے حصول کے لیے لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے اور اپنی موقتی زندگی کو سنوارنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنی آخرت کو بھی تباہ کررہا ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ بعض نام نہاد اور جعلی پیر ایسے بھی ہیں جو معصوم عوام الناس کو سلوک الی اللہ کی سیر کرانے کے جھوٹے دعوے کرکے دنیا کمانے کی کوشش کررہے ہیں۔ خوف و خشیت الٰہی کے باعث آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا صاحب ایمان ہونے کی علامت ہے قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ رسول مکرمؐ کے انذار و تنذیر سے وہی شخص مستفید و مستفیض ہوسکتا ہے جو یوم النشور کا خوف و ہراس رکھتا ہے۔
مسلمانوں کی گریہ و زاری اسی وقت موثر ثابت ہوگی جب وہ اخروی اعتبار سے ہر روز اپنے معمولات زندگی کا محاسبہ کریں۔ خود احتسابی کے مثبت اثرات ہماری زندگی پر یہ ہوں گے ہم دنیا و آخرت میں نقصان پہنچانے والے اعمال سے اجتناب اور دنیا و آخرت میں منفعت بخش اعمال کی طرف تیزی سے مائل و راغب ہوں گے۔ لہٰذا جہنم سے پناہ مانگنے کی دعا کرنے کے ساتھ ہمیں آخرت کی دائمی زندگی پر دنیا کی موقتی خوشحالیوں کو قربان کرنا پڑے گا۔
یہ ہمارے دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ حقیقی قدرت کا مالک رب کائنات ہے اس حقیقت کو ماننے کے باوجود دنیاوی زندگی میں حاصل ہونے والے اقتدار و قوت کا ہم غلط استعمال کرتے ہوئے ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں اور مظلوموں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، آج ہم اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ کم خرچ والے نکاح میں برکتیں ہوتی ہیں، مسلم معاشرے میں شادیاں اسراف کی نذر ہورہی ہیں، میدان محشر میں ہمیں اپنے ہر عمل کا حساب کتاب دینا ہے اس پر یقین رکھنے کے باوجود ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو احساسِ جوابدہی کے تصور کو بالائے طاق رکھ کر زندگی بسر کررہے ہیں۔
اس بندے سے زیادہ خسارے میں کون ہوگا جس نے اللہ تعالی کے عطا کردہ عظیم سرمایہ یعنی صحت و سلامتی، عمر و اقبال مندی، عقل و دانائی، الطاف و احسانات الٰہی کو حقیر چیزوں کے حصول کے لیے گنوادے اور آخرت کی ذلت و رسوائی کو اپنا مقدر بناتے ہوئے اُس جنت سے محروم ہوجائے جس کے کوڑے کی جگہ دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے کو اہل دوزخ کا شعار بتایا ہے یعنی جو لوگ دنیا میں ہمیشہ نیکیوں کو فراموش کرکے پر برائیوں کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں وہ بروز محشر جہنم کا ایندھن بنیں گے (العیاذ باللہ)۔
لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ آخرت کے مصائب و سخت حوادثات اور جہنم سے نجات کی دعا کرنے کے ساتھ آخرت کو ہمیشہ دنیا پر ترجیح دیں اور یہی مطیع مومنین اور مخلص بندوں کا طرز حیات ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم سب اپنی جہود مخلصہ اس بات پر بذل کریں کہ ہر سربراہ اپنے ماتحتین کو بھی دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی ہمیشہ تلقین و تاکید کریں گے اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر ہر ٹیچر و پروفیسر اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے بجائے طلباء کے مستقبل کو سنوارنے میں زندگی وقف کرے گا، ہر ایڈوکیٹ جھوٹے مقدمات کی بجائے حق پر مبنی مقدمات لڑنے کو ترجیح دے گا جس سے انصاف کا بول بالا اور ناانصافی کا منہ کالا ہوگا، ہر سیاست داں مصلحت پسندی کی بجائے بلا لحاظ مذہب و ملت ہر انسان کی ہمہ جہت فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گا۔
علاوہ ازیں ہمیں شرک، قتل، ظلم، ریاکاری، زنا، بدفعلی، رشوت خوری، شراب نوشی، غرور، جھوٹ، غیبت، بغض، کینہ، جادو، ترک نماز، سود خوری، چغل خوری، والدین کی نافرمانی، ذخیرہ اندوزی، ناچ گانا، بد نظری، خیانت، بخل، وعدہ خلافی، بد عہدی، خود غرضی، مفاد پرستی، قطع رحمی، دھوکہ دہی، بدعات، خرافات، واہیات رسومات الغرض ہر اس گھناونے قول و عمل سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے جو ہمیں رحمت خداوندی سے دور اور جہنم سے قریب کردے۔
تمام اچھائیوں کو اپنانا اور تمام برائیوں سے دور رہنا انسان کے لیے اسی وقت ممکن اور آسان ہوگا جب وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیگا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔