ماضی قریب کی ہماری دینی تاریخ میں مدارس کے سالانہ جلسوں کا ایک اصلاحی کردار رہا ہے. جن لوگوں کو ہندوستانی مسلمانوں کی دینی صورت حال سے دلچسپی رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ مدارس کے ان جلسوں نے لوگوں عام لوگوں تک دین کا پیغام پنہچانے میں ایک کردار ادا کیا ہے، بالخصوص دینی تعلیم کی طرف متوجہ کرنے اور بدعات وخرافات کے خاتمہ میں ان جلسوں سے بڑا کام لیا گیا ہے. ان سالانہ عوامی جلسوں میں علاقہ یا ملک کے ممتاز علما وواعظین آتے اور بیانات کرتے، عوام شرکا کی ایک تعداد ان کو سنتی، ایک اصلاحی پیغام لے کر گھر جاتی، اور اس کی زندگیوں میں یا کم از کم اس کے طرز غور وفکر میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی۔
لیکن ادھر چند برسوں سے مدارس کے اکثر سالانہ جلسے بے سمت ہوتے جارہے، ان کا اصلاحی کردار ختم ہوتا جارہا ہے، سنجیدگی اور مقصدیت مفقود ہوتی جارہی ہے، ناظمین کی نظامت سے لے کر خطیبوں کی خطابت تک اسی غیر سنجیدگی کا نمونہ ہوتی ہیں.
جلسہ کے ناظموں کو خبر ہی نہیں کہ دینی جلسوں کی نظامت اور مشاعروں کی نظامت میں فرق ہونا چاہیے، ان کی اکثریت مشاعروں کے اس دور زوال میں ہورہی نظامت کی نقل کرنا چاہتی ہے، مبالغہ آرائی اور بے جا تک بندی کی کسی حد پر رکنے کو یہ تیار نہیں، سنجیدگی اور صدق بیانی سے ان کو کوئی واسطہ نہیں. چند الفاظ وترکیبات کی الٹ پھیر کو یہ کمال تصور کرتے ہیں.
خطیبوں کی ایک تعداد یا تو مزاحیہ ادا کاری کرتی ہے یا عوام کو مرعوب کرنے کے لیے غیر مفید معلومات رٹ کر آتی اور سناتی ہے، چیختی ہے چلاتی ہے اور سامعین پر اپنے علم کی دھونس جماتی ہے، ان جلسوں کے خطیبوں میں شاذ ونادر وہ ہوتے ہیں جو سچا اور صاف ستھرا دینی پیغام لوگوں تک پنہچانے کی فکر کریں، ان کے اندر اللہ کا پاس، جنت کا شوق اور جہنم کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کریں، سچا دینی فہم عام کریں. اور اگر کوئی ایسا شخص پہنچ بھی جائے تو اس کی باتیں نام کے ان دینی جلسوں میں اجنبی باتیں سمجھی جاتی ہیں، اور وہاں کی بے مقصد وغیر سنجیدہ فضا میں غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہیں.
رہی سہی کسر ان مغنیوں نے پوری کردی ہے جو کہنے کو تو نعت خواں، مداح خیر الانام یا شاعر اسلام ہوتے ہیں، لیکن نعت کے نام پر خدا جانے یہ قوم کو کیا کیا سناتے ہیں، اپنے طرز ادا سے یہ پورے جلسے کو غیر سنجیدہ بنانے کا کام کرتے ہیں، داد کی وہ بھوک ان میں پائی جاتی ہے جو کچھ دنوں پہلے تک صرف ہندی کویوں کے یہاں پائی جاتی تھی، ہر اچھے برے شعر پر یہ سامعین سے واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعرے بلند کرنے کی اپیل کرتے رہتے ہیں، داد کا مطالبہ جس بے حیائی کے ساتھ یہ کرتے ہیں اردو تہذیب کے عام شعرا بھی اس بے حیائی کے ساتھ داد نہیں مانگتے تھے۔
یہ دینی جلسے کے اسٹیج پر اس زمانہ کے بعض مشہور ہندی کویوں کی نقل کرتے ہیں. اور نعت کا تقدس پامال کرتے ہیں. بے مقصد منتظمین جلسہ جب خود بے مقصد ہوں تو انھیں کیا خبر ہو کہ وہ ایک دینی ادارہ کے دینی جلسہ کو سیر وتفریح کا سامان بنانے کے مرتکب ہیں. انھیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ جس جلسہ سے کوئی بامقصد پیغام عوام تک پنہچا سکتے تھے اس جلسہ کی سنجیدگی اور مقصدیت کا وہ کیسا خون کررہے ہیں.
دین یا دینی راہنمائی کا کوئی نظام جب بے سمت ہوتا ہے تو یہی سب کچھ اس کے ساتھ ہوتا ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ قریش کا دینی ذوق بگڑا تھا تو وہ عبادت کے عمل میں سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے لگے تھے، جن جلسوں میں اللہ ورسول کا پیغام پنہچایا جانا تھا ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں آج کتنی تالیاں پیٹی جاتی ہیں، اور کس کس طرح کے قہقہے لگائے جاتے ہیں!!!!!
ہمارے ملک میں جن خانقاہوں سے لاکھوں کی زندگی بامقصد بنی تھی، ان میں اللہ کو راضی کرنے کی فکر پیدا ہوئی تھی، نیکیوں میں مسابقت اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوا تھا، وہاں کے جانشیں بے مقصد ہوئے اور غیر سنجیدہ ہوئے تو اجمیر سے لے کر درگاہ حضرت نظام الدین تک سوائے قوالیوں کے اور کیا ہورہا ہے، وہاں جائیے تو لگتا ہی نہیں کہ کبھی یہاں کی فضا بھی سنجیدہ رہی ہوگی، اور یہاں آکر کبھی زندگیوں کے رخ بدلتے ہوں گے.
ہمارے مدارس کے آج کے اکثر جلسوں کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ ہندوستان میں خانقاہوں کے بعد جن مدارس نے لوگوں کو سچے دین سے آشنا کرنے کا کام کیا تھا کہیں اب ان مدارس کے ساتھ بھی یہی حادثہ تو گزرنے نہیں جارہا ہے، العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ