کیرالا کی ایک مسلم خاتون جائیداد میں بہنوں کے لئے بھی مساوی حصہ داری کے لئے شریعت کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی جہاں سپریم کورٹ نے اس کی دائر کردہ عرضی پر سماعت کرنے سے اتفاق کیا ہے یہ خاتون پہلے کیرالا ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی تھی جہاں اس کی درخواست کو مسترد کردیا گیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 17 جنوری کو ایک مسلم خاتون کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کرنے سے اتفاق کیا، اس خاتون یہ دعویٰ کیا تھا کہ شریعت میں عورت کو مرد کے مقابلہ میں برابر حصہ نہ دینے کی حد تک امتیازی اور ہندوستانی آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بشری علی کی جانب سے دائر کردہ عرضی پر جسٹس کرشنا مراری اور جسٹس سنجے کرول پر مشتمل بنچ کیرالا ہائی کورٹ کے 6 جنوری کے حکم نامہ کے خلاف اپیل کی سماعت کررہی تھی۔ بشری علی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی شکایت یہ ہے کہ بیٹی ہونے کے ناطے شرعی قانون کے مطابق انہیں اپنے مرد کے مقابل صرف آدھا حصہ دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے درخواست گزار بشری علی کے 11 بھائی بہنوں کو نوٹس جاری کی، جن میں 4 بہنیں شامل ہیں۔ ایڈوکیٹ بیجو میتھیو جوائے کے ذریعہ دائر کردہ درخواست میں مزید کہا گیا کہ بشریٰ بٹوارہ کے مقدمہ میں ڈکری ہولڈر ہے، جس کے تحت 19 جنوری 1995ء کے ابتدائی حکم نامہ کے مطابق انھیں 1.44 ایکڑ پر مشتمل شیڈول جائیداد کا 7/152 حصہ دیا گیا۔
بشری علی کے وکیل جوائے نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بشریٰ کی جانب سے داخل کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ٹرائیل عدالت کے ذریعہ منظور کردہ حتمی حکم نامہ سے ناراض ہے، جس میں درخواست گزار کو صرف 4.82 سینٹ جائیداد دی گئی تھی، جس پر ایڈوکیٹ کمشنر کے پلان کے پلاٹ D کا نشان لگایا گیا تھا۔
بشریٰ نے کہا کہ اس کے والد کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ 7 لڑکے اور 5 لڑکیاں شامل ہیں۔ بشری نے درخواست میں کہا ہندوستانی آئین کی ضمانت کے باوجود بھائی بہنوں میں جائیداد کی تقسیم میں مسلم خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ 19 جنوری 1995ء کے ابتدائی حکم نامہ کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا اور وہ حتمی ہوگیا تھا۔ درخواست گزار بشری علی نے کہا کہ یہ عرض کرنا کہ شریعت کے قانون کے مطابق جائیداد کی تقسیم امتیازی ہے اور اس کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم پرسنل لا (شریعت) اپلی کیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 اس حد تک کہ عورت کو برابر کا حصہ نہ دیا جائے، دستور کی دفعہ 15 کے مغائر ہے اور اسی لیے دستور کی دفعہ 13 کے تحت کالعدم ہے۔ درخواست میں کہا گیا گیا کہ اسی طرح کا ایک اور معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔
بشریٰ نے کہا کہ انہوں نے ایڈوکیٹ کمشنر کی رپورٹ اور پلان مؤرخہ 2022ء کے خلاف ٹرائیل عدالت کے سامنے اعتراضات اٹھائے، لیکن انہیں خارج کردیا گیا اور ایڈوکیٹ کمشنر کے پلان کو قبول کرلیا گیا اور اس کی بنیاد پر درخواست گزار کو 4.82 سینٹس کی جائیداد دی گئی۔