جس مذہب میں پاکی و صاف ستھرائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا آج اس قوم کے محلوں اور مقامات کی پہچان گندگی سے کی جاتی ہے جو انتہائی قابل افسوس لمحہ فکریہ ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، ٹھیک اسی طرح چمکتے ہوئے برتن، میلوں سے پاک کپڑے اور خوبصورت زیب تن لباس دیکھنے میں جتنے بھلے لگتے ہوں اور ان کو پہن کر آپ کو اپنے ہینڈ سم ہونے کا جس قدر گمان ہوتا ہو، لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ پاک بھی ہوں، صفائی اور چیز ہے، پاکی اور چیز، بازار میں کھانے پینے کی دوکانوں پر جوبرتن ہوتے ہیں وہ عموما دیکھنے میں صاف ستھرے رہتے ہیں، اوسط قسم کے مسلم ہوٹلوں میں اس میں کمی نظر آتی ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں جامع مسجد کے سامنے جو بریانی بکتی ہے وہ ایسے دیگوں میں پکتی ہے، جس میں خوردبین سے بہادر شاہ ظفر کے دور کے ذرات تلاش کیے جا سکتے ہیں، یقینا یہ مبالغہ ہے، لیکن کسی دل جلے نے یہ بات وہاں کے دیگوں کی گندگی کو دیکھ کر ہی کہی ہوگی۔
اس کے بر عکس غیر مسلم بھائی کی دکانوں کے برتن اور لائن ہوٹل پر استعمال کیے جانے والے ظروف صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ پاک بھی ہیں، اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ ان ہوٹلوں پر استعمال شدہ برتن جہاں رکھے جاتے ہیں وہاں عموما کتے اس کی باقیات کے ساتھ برتن کو بھی چاٹ چاٹ کر صاف کر دیتے ہیں، کتوں کے ذریعہ صفائی کا یہ عمل برتن کو ناپاک کر دیتا ہے، کتوں کی زبان اور لعاب سے جو برتن صاف کیا گیا ہو اس کو ہمارے یہاں کم از کم تین بار دھونے کا حکم ہے، بلکہ روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اسے سات مرتبہ دھویا جائے، اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھویا جائے، تاکہ برتن کی پاکی کے ساتھ وہ جرثومے بھی مر جائیں اور صاف ہو جائیں، جو کتوں کے لعاب میں ہوتے ہیں اور انسان کو بیمار کر سکتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ہوٹل کا ہی نہیں، اسکولوں کا بھی ہے، اسکولوں میں جو مڈڈے میل دیا جاتا ہے، اس میں کچھ برتن تو وہ ہوتے ہیں جو طلبہ وطالبات اپنے ساتھ لاتے ہیں، اور کچھ برتن بعض اسکولوں میں طلبہ کو کھانے کے لیے دیے جاتے ہیں، کھانے کے بعد انہیں باہر جو ٹھا رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ باورچی یا باورچن آرام سے اسے دھوئے، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ان کے دھونے سے پہلے کتے اسے اپنی زبان سے صاف کر دیتے ہیں، جب صفائی ہوگئی تو دھونے والا عملہ صرف اس پر پانی بہا دیتا ہے، پانی بہانے کے اس عمل سے برتن صاف دکھائی تو دیتا ہے، لیکن وہ پاک نہیں ہوتا اور نہ جانوروں کے منہہ میں جو جراثیم ہوتے ہیں، اس سے وہ محفوظ ہوتا ہے، اگلے دن طلبہ وطالبات جب اسی برتن میں کھاتے ہیں تو یہ جراثیم بچوں کو لگ جاتے ہیں اور بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔
اسی قسم کا ایک معاملہ سنبھل کے شہزادی سرائے پرائمری اسکول کا اخبارات کی زینت بنا ہے، جب صحافیوں نے اس اسکول کا دورہ کیا تو اسکول میں کوئی موجود نہیں تھا اور مڈڈے میل کے لیے مستعمل برتنوں کو آوارہ جانور چاٹ رہے تھے، یہ ایک واقعہ صحافیوں کے سامنے آیا اور انہوں نے اسے خبر بنا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سارے اسکولوں کا یہی حال ہے، مڈڈے میل کھا کر بیمار پڑنے کے واقعات کثرت سے سامنے آتے ہیں، سانپ کے بچوں اور چھپکلی تک کھانے سے نکلنے پر اب کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ یہ حالات اس لیے پید اہوئے کہ جو احتیاط کھانا پکانے اور برتن کو پاک وصاف رکھنے کے لیے کیا جانا چاہیے اس سے پہلو تہی کرنا، اسے نظر انداز کرنا عام سی بات ہے، اور کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ نے کو تیار نہیں ہے۔
اسلام میں صفائی اور پاکی دونوں مطلوب ہے، بعض اکابر کو یہ کہتے سنا کہ جس طرح پانی کی موجیں اور شجر وحجر ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، اسی طرح صاف کپڑے بھی اللہ کی تسبیحات بیان کرتے ہیں، فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جب کپڑا صاف ہوتا ہے تو گرمی کم لگتی ہے اور جب میلا ہوجاتا ہے تو ذکر موقوف ہوجاتا ہے، اسی لیے گندے کپڑے میں گرمی زیادہ لگتی ہے، کپڑے تسبیح پڑھتے ہیں یا نہیں یہ تو بڑوں کے ادراک واحساس کا معاملہ ہے، لیکن گرمی کم اور زیادہ لگنے کی بات تو تجربہ سے ثابت ہے، اسلام میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، صفائی کے ساتھ بدن، کپڑے، مکانات اور جگہوں کا پاک ہونا بھی شریعت میں مطلوب ہے، یہ پاکی نہ پائی جائے تو ہماری عبادتیں درست نہیں ہوں گی، اس لیے ضروری ہے کہ صاف ستھرا بھی رہا جائے اور یہ صفائی ستھرائی پاکی کے ساتھ ہو۔
بد قسمتی سے مسلم محلوں کی پہچان آج گندگی بن گئی ہے، معاملہ آوارہ جانوروں کے برتن چاٹنے کا ہی نہیں، ان گندگیوں کا بھی ہے جو بڑی آسانی سے ہم سڑکوں اور نالیوں میں ڈال دیتے ہیں، یہ عمل ہمارے ایمانی تقاضوں کے منافی ہے، اس سے فضائی آلودگی اور مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، ان بیماریوں سے بچنے اور سماج کو بچانے کے لیے صفائی اور پاکی کے بارے میں ہمیں بہت حساس ہونے کی ضرورت ہے اور ان جگہوں پر کھانے اور وہاں کی اشیاء کے استعمال سے پرہیز کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں اس حد تک احتیاط نہیں کی جاتی ہے۔