سنیاسی ہندی کا لفظ ہے، اس کے معنی ہندو فقیر، تارک الدنیا کے آتے ہیں، ہندو مذہبی افکار و روایات کے مطابق سنیاسی اس کو کہتے ہیں، جس نے دنیا اور علائق دنیا سے ترک تعلق کر لیا ہو، شادی بیاہ نہ کیا ہو، بال بچوں کے جنجال سے پاک ہو، پہاڑ کی چوٹی اور گوفاوں میں سب سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گذار رہا ہو اور اپنے مذہبی تصورات ومعتقدات کی بنیاد پر بھگوان کی پوجا پاٹ اور جاب میں سارا وقت لگا رہا ہو، کوئی آجائے تو اس کے دکھ درد دور کرنے کے لیے بھگوان سے پرارتھنا کرے، کوئی آشرواد چاہے تو اسے آشرواد دیا جائے، آشرواد دینے کے بھی الگ الگ طریقے ان کے پاس رائج ہیں، کوئی سر پر ہاتھ رکھ کر آشرواد دیتا ہے اور کوئی چرنوں میں جھکا کر اپنی تپسیا کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے،بعض سادھو سنتوں کو سر پر پاؤ رکھ کر آشرواد دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
ان سنیاسیوں اور سادھو سنتوں کی بھی الگ الگ تہذیب اور اپنے گرؤوں کے اپدیش اور ہدایت کے مطابق جینے کا الگ الگ انداز ہوتا ہے، ان میں سے بعض کے سروں پر لمبی جٹائیں ہوتی ہیں، جنہیں وہ مخصوص انداز میں اپنے سروں پر لپیٹے ہوتے ہیں، بعض بدن کے نچلے حصے کو کپڑوں سے ڈھکتے ہیں اور ناف سے اوپر کا حصہ ہر موسم میں کھلا رہتا ہے، جاڑا گرمی برسات ہر موسم میں ان کے جسم کپڑوں سے خالی رہتے ہیں، مسلسل ایسا کرنے کی وجہ سے ان کا جسم موسم کی شدت اور تیزی کو بر داشت کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے جسم کا جو حصہ ہر موسم میں کھلا رہتا ہے اس پر سردی گرمی کا اثر بہت نہیں پڑتا، جب کہ جو اعضاءکپڑے میں رہتے ہیں، ان کو ہر موسم میں الگ الگ کپڑوں کی طلب ہوتی ہے، بعض سادھو ¿ں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ جسم کے نچلے حصے کو بھی بالکل کھلا چھوڑ دیتے ہیں، یا برائے نام کپڑا ہوتا ہے، جس سے آگے پیچھے کے اعضاءڈھکتے ہیں، کمبھ اشنان کے موقع سے سادھوں اور سنیاسیوں کے جواکھاڑے نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ایسے سادھووں کی ہوتی ہے جو مادر زاد ننگ دھڑنگ ہوتے ہیں، اور ان کے پیچھے عقیدت مندوں کا ایک قافلہ ہوتا ہے، ان کے عقیدت مند یہ سمجھتے ہیں کہ بابا نے بھگوان کا اوتار لے لیا ہے اور بھگوان کو دنیاوی چیزوں کی کیا ضرورت ہے، ان کے خیال میں ایشوریہ شکتی کی وجہ سے ان کا سارا کام چلتا ہے، سنیاسی ہونے کے ان ہی تصورات کی وجہ سے رام جی کا شمار سنیاسی میں نہیں ہوتا، کیوں کہ انہوں نے سیتا جی سے شادی رچائی تھی اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، اس لئے ان کے خیال میں مردوں میں سب سے اچھے مرد پروش اتم، ہونے کے باوجود وہ سنیاسی نہیں ہیں۔
ترک دنیا کا یہ تصور دوسرے مذاہب کے پیشواؤں میں بھی پایا جاتا ہے، بودھ جی نے بھی راج پاٹ چھوڑ کر ایشور کی طرف جب رخ کیا تو دنیاوی علائق سے اپنے کو پاک کر لیا، بیوی بچوں کو بھی چھوڑ دیا اور گیا میں گیان دھیان کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، برسوں بعد کہتے ہیں کہ انہیں گیان ملا اور اس گیان کو لے کر وہ گھومتے رہے اور مستقل ایک مذہب کی بنیاد ڈالی، گیان کے بعد بھی انہوں نے بیوی بچوں کی طرف رخ نہیں کیا۔
لیکن گذشتہ دو تین دہائیوں میں ہندوؤں کے یہاں سنیاسیوں میں بھی دنیا اور لوگوں پر حکومت کرنے کا سیاسی طریقہ رائج ہو گیا ہے، سادھو سنتوں نے یہ سوچا کہ جب ہمارے آشرواد سے لوگ پارلیامنٹ اور اسمبلیوں میں پہونچ جاتے ہیں، ہمارے سپورٹ سے ہمارے انویائی عقیدت مند ووٹ دے کر انہیں سنگھاشن تک پہونچا دیتے ہیں تو یہ سکھ ہم کیوں نہیں حاصل کر سکتے، اپنے مٹھوں سے وہ باہر آگیے اور ان کے ماننے والوں نے آسانی سے انہیں اقتدار تک پہونچا دیا، اوما بھارتی سادھوی پرگیہ اور اب آدتیہ ناتھ یوگی سب نے اقتدار تک پہونچے کے لیے اپنے سنیاسی ہونے کا فائدہ اٹھایا۔
رائے دہندگان کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کے خلاف گرم گرم تقریریں کیں اور اپنے بیانات سے لوگوں کو باور کرایا کہ ہندو دھر م خطرے میں ہے، عام ہندوؤں میں اس احساس کو جگانے کی وجہ سے ملک میں عدم رواداری کا ماحول خطرناک حد تک بڑھا،گو کشی اور دوسرے عنوانات سے قتل وخوں ریزی کا بازار گرم ہوا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سارا کام دھرم اور مذہب کے نام پر کیا گیا اور ان لوگوں نے کیا، جنہوں نے اپنی زندگی کا ادھیش اور مقصد صرف اور صرف پوجا ارچنا قرار دے رکھا تھا، ہندو مذہبی تصورات اور میتھالوجی کے مطابق یہ دنیاوی لوبھ کی طرف سنیاسیوں کو لے جا رہا ہے، یہ ان کے مذہب کے خلاف ہے۔
رہ گئی ہندو دھرم کے خطرہ میں ہونےکی بات تو اس کے محض پرو پیگنڈہ ہو نے سے کوئی با شعور آدمی انکار نہیں کر سکتا۔میں بھکتوں کی بات نہیں کرتا۔جب ملک کے سارے کلیدی عہدے اور وزیر اعلی کی کرسی تک پر ہندو ہی براجمان ہوں۔ایسے میں انہیں آخر کس سے خطرہ ہے۔خطرہ تو انہیں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار میں بھی نہیں رہا۔ مسلمانوں میں رواداری اور رعایا کے تئیں ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے غیر مسلم اقلیتوں نے پر سکون زندگی گذاری۔اور اپنے طویل دور اقتدار میں کبھی نفرت کے ماحول کو پنپنے نہیں دیا۔ جب کہ آج چند سالہ دور اقتدار میں ملک نفرت کے آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور یہ آتش فشاں ملک کے الگ الگ حصوں میں پھٹ کر خرمن امن و سکون کو خاکستر کرتا رہتا ہے۔ راہل گاندھی کے بھارت جوڑو یاترا کو نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے کے عمل سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ ےگا۔
جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ ہے، ہمارے یہاں ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام میں رہبانیت ترک دنیا نہیں ہے، یہاں تو شادی بیاہ بھی کرنی ہے، بال بچوں کی پرورش وپر داخت بھی کرنی ہے، سماج، پڑوس، ملک اور ملت کی خدمت میں زندگی کھپا دینی ہے، اپنی زندگی اللہ کی مرضیات کے مطابق گذارنی ہے اور دوسروں کو بھی اس کام کے لیے تیار کرنا ہے، اللہ کے حکم کی تعمیل ہو، اس کے لیے حکومت کے حصول کی کوشش بھی کرنی ہے، اور اقامت کے ساتھ خلافت الٰہی کو روئے زمین پر نافذ کرنے کی سعی مسلسل کرنی ہے۔
اسی وجہ سے سیاست ہمارے یہاں شجر ممنوعہ نہیں ہے، جس کے گرد پھٹکا نہ جائے، سیاست میں گندگیوں کے داخل ہونے کی وجہ سے مذہبی لوگ اس سے بیزار نظر آتے ہیں، لیکن ہماری ذمہ داری جس طرح دوسرے شعبوں میں پاکیز گی لانے کی ہے، اسی طرح سیاست کو بھی صحیح رخ دینے کے لیے ملی جذبہ سے سرشار لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے، بالکل سنجیدگی کے ساتھ، سوچ سمجھ کر، مضبوط حکمت عملی کے ذریعہ، جذباتی نعرے اور وقتی جوش نے ہر دور میں ملت کو نقصان پہونچایا ہے اور اب بھی یہ نقصان دہ ہے۔
تاریخ کا یہ کیسا المیہ ہے کہ جو سنیاسی تھے، وہ سنگھاسن تک پہونچ رہے ہیں اور جنہیں اس روئے زمین کی خلافت سپرد کی گئی تھی وہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، جب کہ اس دور میں جب بقول مولانا ابوالکلام آزاد گونگے بول رہے ہیں اور بہرے سننے لگے ہیں، ہمیں بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے مستقبل کو تابناک بنانے اور ظلم وستم کی گرم بازاری روکنے کے لیے کیا کچھ کرنا ممکن ہے۔
(مضمون نگار مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)