پٹنہ: صدر جمعیۃ العلماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں آج سنیچر کو یک روزہ گیارہواں عظیم الشان صوبائی اجلاس بنام ’تحفظ جمہوریت کانفرنس‘ شری کرشن میموریل ہال، نزد گاندھی میدان ، پٹنہ منعقد ہوا۔ جس میں ملک وریاست کے جمعیة سے منسلک اراکین سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ اس موقع پر مولانا سید ارشد مدنی، صدر جلسہ و صدر جمعیہ علماء ہند نے ایک پر مغز خطاب فرمایا۔
انہوں نے ملک کی موجو دہ صورتحال پر انتہائی دکھی انداز میں جمعیة کی آزادی سے قبل اور بعد کے کردار پر کہا کہ موجودہ حکومت کو نہ جمعیة کے بارے میں پتہ ہے اور نہ ہی ملک کے لئے جو جمعیة کی قربانیاں ہیں اس بارے میں علم ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری جمعیة سیاسی جمعیة نہیں ہے بلکہ ہماری جمعیة مذہبی جمعیة ہے۔ ہم نہ کسی کو الیکشن لڑاتے ہیں اور نہ ہی کسی کا سپورٹ کرتے ہیں۔ ہاں لیکن جب بھی ملک کے دستور اور اس کے آئین کے خلاف کام ہوگا ہم نے پہلے بھی قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ادا کرتے رہیں گے۔ کیونکہ اگر ملک جمہوری اور سیکولر ہے تو یہ سبھی باشندوں کے مفاد میں ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
مولانا نے کہا کہ آج اگر ملک کا آئین سیکولر ہے تو وہ بھی جمعیة علماءہند کی ہی دین ہے۔ کیونکہ ہمارے اکابرین نے جنگ آزادی سے قبل کانگریس اور گاندھی ونہرو سے کہا تھاکہ جب یہ ملک آزاد ہوگا تو یہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہوگا اگر آپ اس کی گارنٹی دیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم نہ کبھی ملک کی تقسیم کے حامی رہے ہیں اور نہ ہیں۔ اسی لئے ہمارے اکابرین پر جوتے پڑے ، گالیاں کھائیں۔پگڑیاں اچھالی گئیں لیکن پائے ستقامت میں کوئی جنبش نہیں آئی اور ملک کی تقسیم کے ہم مخالف تھے اور ہیں۔ لیکن مشیت ایزدی تھی ملک تقسیم ہوگیا۔ جب ملک تقسیم ہوگیا تو ایک معمولی گروہ اس بات پر بضد تھاکہ ملک کا دستور مذہبی ہوگا۔ لیکن جمعیة نے گاندھی نہرو سے کہاکہ آپ نے وعدہ کیا تھاکہ ملک کا دستور سیکولر ہوگا آپ کے وعدے کے تمام دستاویزات ہمارے پر پاس محفوظ ہیں لہذا آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمعیة کی کوششوں سے ملک کا دستور جمہوری ہوا۔ اور آج ہم اس جمہوری سیکولر ملک میں امن وامان کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن کچھ سالوں سے اس سیکولر ملک کی جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اور آئین کو بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ تب جمعیة اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس بات کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ملک کے اندر امن وامان کی صورتحال برقرار رہے۔اسی لئے تحفظ جمہوریت پر کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں۔ انہوں نے حاضر ین کو مخاطب کرتے کہاکہ آپ برداران وطن کے خوشی وغم میں شریک ہوں۔ جوامن پسند شہری ہیں ، طاقتیں ہیں انکے ساتھ بات کی جائے اور ملک وجمہوریت اور سیکولرازم پر جو خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اسے ختم کیاجائے۔ ملک کے آئین کی حفاظت سبھوں کی ذمہ داری ہے یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج اگر برادران وطن کو غلط فہمی ہے تو اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ کیونکہ ہم ان کو اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش نہیں کر پارہے ہیں۔ اور اگر ہم یہ نہیں کر پارہے ہیں تو اس میں ہمارا بھی قصور ہے اور ان حالات کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ انہوں نے بابری مسجد کے سلسلے میں کہا کہ ہم لوگ 70 سالوں سے مقدمہ لڑ رہے تھے کہ بابر نے مندر توڑکر مسجد نہیں بنائی جب بابری مسجد کا فیصلہ آیا تو ہمار ا موقف کی جیت ہوئی کہ وہاں مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی ۔ ہم لوگ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، مگر آنے والی نسلوں کو جب اس تاریخ کا پتہ چلے گا اور مورخ اس کے بارے میں لکھے گا تو اس وقت کیا ہوگا یہ اللہ کو ہی معلوم۔‘‘